ابھی کیا کہیں ؟
ابھی کیا سنیں؟
کہ سرِ فصیلِ سْکوتِ جاں
کفِ روز و شب پہ شرر نما
وہ جو حرف حرف چراغ تھا
اْسے کس ہوا نے بجھا دیا

کبھی لب ہلیں گے تو پْوچھنا

سرِ شہرِ عہدِ وصالِ دل
وہ جو نکہتوں کا ھجوم تھا
اس دستِ موجِ فراق نے
تہہ خاک کب سے ملا دیا

کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا

ابھی کیا کہیں ابھی کیا سنیں
یونہی خواہشوں کے فشار میں
کبھی بے سبب کبھی بے خلل
کہاں کون کس سے بچھڑ گیا

کبھی پھر ملیں گے تو پْوچھنا

محسن نقوی