السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ
مولوی فیروز الدین کی مرتب کردہ مشہور زمانہ اردو لغت "جامع فیروز اللغات" میں اردو زبان کی ابتداء اور اس کی ارتقا کے حوالے سے ایک سیر حاصل مقالہ شامل ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ یہ اہم ترین مقالہ کسی مصنف / محقق کے نام کے بغیر شائع ہوا ہے۔ گمان اغلب ہے کہ لغت کے مرتبین نے مختلف تحقیقات کے سہارے اسے مرتب کیا ہوگا۔
مقالہ نگار کے نام سے لاعلمی کے باوجود یہ مقالہ نہایت ہی اہم، قابل قدر اور دلچسپ ہے۔ اردو زبان کی شروعات ، اس کا خاندان، اس کا پھیلاؤ ، اس کی اٹھان ، اس کی مقبولیت اور دیگر متعلقہ موضوعات پر جتنی تحقیق پیش کی گئی ہے ، وہ بس پڑھنے کے قابل ہے۔
** انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے ۔۔۔ ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور اس رشتے کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں۔ انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے۔

** اردو زبان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندی ، فارسی اور عربی کی تمام آوازیں موجود ہیں۔ اردو کے حروفِ ہجا ان تینوں زبانوں کے حروفِ ہجا سے مل کر بنے ہیں۔ ۔۔۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس زبان میں دوسری زبانوں کے لفظوں اور محاوروں کو اپنانے کی بڑی صلاحیت ہے۔ ۔۔۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط ابتدا سے فارسی ہے۔


** اردو زبان کو انیسویں صدی کی ابتدا تک ہندی ، ہندوی ، دہلوی ، ریختہ ، ہندوستانی ، دکنی اور گجراتی غرض مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔


** ڈاکٹر گلکرسٹ نے جب ملک کی سب مقبول زبان جو شمالی ہند کے علاوہ دکن حتیٰ کہ مدراس اور بنگال میں بولی اور سمجھی جاتی تھی ، انگریزوں کو سکھانے کا ارادہ کیا تو اس زبان کو 1787ء میں "ہندوستانی" کا نام دیا۔


** اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی لشکر ، سپاہی ، کیمپ ، خیمہ وغیرہ کے ہیں۔ عہدِ مغلیہ میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ زبان کے معنی میں اس لفظ کا استعمال چنداں قدیم نہیں۔ میرامن دہلوی ، سرسید احمد خان اور سید احمد دہلوی (مولف فرہنگِ آصفیہ) کا یہ دعویٰ کہ اردو زبان کی ابتداء شاہجہانی لشکر (اردو) سے ہوئی اس لیے اس زبان کا نام بھی اردو پڑ گیا ، درست نہیں ہے۔ کیونکہ اٹھارویں صدی عیسوی سے پیشتر کا کوئی شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار اس زبان کو "اردو" سے تعبیر نہیں کرتا۔


** علمائے لسانیات نے زبانوں کو ان کی صَوتی اور صرفی خصوصیات کی بنیاد پر مختلف خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ سب سے بڑا خاندان آریائی زبانوں کا ہے۔ اس کے بعد منگول خاندان (چینی ، جاپانی وغیرہ) کا نمبر آتا ہے۔ اور پھر سامی (عربی اور عبرانی وغیرہ) اور دراوڑی (تلگو ، تامل ، ملیالم ، کنٹری) زبانوں کے خاندان ہیں۔

آریائی خاندان جو بنگال سے ناروے تک پھیلا ہوا ہے کئی گھرانوں میں بٹ گیا ہے۔

** ہندی کا علاقہ بہت وسیع تھا۔ یہ زبان ملتان سے پٹنہ تک بولی اور سمجھی جاتی تھی اور اس کی بہت سی مقامی بولیاں تھیں مثلاً برج بھاشا، کھڑی بولی، اودھی، بھوجپوری، قنوجی، ہریانی وغیرہ۔ اور یہ زبان راجستھانی اور پنجابی سے بہت قریب تھی۔ مماثلت اور ہمسائیگی کے باعث ہم ہندی (مغربی اور مشرقی) ، پنجابی ، راجستھانی اور سندھی وغیرہ کو آپس میں بہنیں کہہ سکتے ہیں۔


** مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب "عرب اور ہند کے تعلقات" میں اُن ہندی الفاظ کی طویل فہرست دی ہے جو قدیم عربی لغت میں تجارتی چیزوں کے لیے پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ صندل (چندن) ، کافور (کپور) ، اطریفل (تری پھل) ، نیلوفر (نیلو پھل) وغیرہ ہندئ الاصل الفاظ ہیں۔ قرآن شریف میں بھی ہندی کے تین الفاظ کی نشاندہی کی ہے : مسک (موشکا) ، کافور (کپور) اور زنجبیل (زنجابیر)۔


** ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اردو زبان کا بیج کہاں بویا گیا اور اس کے انکھوے کہاں پھوٹے۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زبان کی علاقائی تقسیم جو آج ہے وہ 800 ، 900 سال پیشتر نہ تھی۔ اُس وقت تک اکثر دیسی زبانوں نے کوئی واضح شکل بھی اختیار نہیں کی تھی۔

قدیم مورخین نے اول تو زبان کے مسائل سے بحث ہی نہیں کی ہے اور اگر اشارۃً ذکر کیا ہے تو بڑے مبہم انداز میں۔