ایک ولی کی موت کے عجیب حالات
حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں حجاز مکہ اور مدینہ کے ارادہ سے نکلا اور کسی کو اپنا رفیق سفر نہ بنایا۔بس میں اسی حالت میں جارہا تھا کہ بیابان علاقہ میں جا پہنچا تو توشہ سفر ختم ہوچکا تھا اور میں ہلاکت کے قریب پہنچ چکا تھا کہ اسی صحراء میں ایک درخت نظر آیا جس کی شاخیں گری ہوئی تھیں اور ٹہنیاں جھکی ہوئی تھیں۔پتے بھی بہت تھے۔مں نے دل میں کہا: اس درخت کی طرف چلتا رہوں اور اس کے سایہ میں بیٹھتا ہوں۔یہاں تک کہ اللہ تعالٰی موت کا فیصلہ فرمادے پس جب میں اس درخت تک پہنچا اور اس کے قریب آگیا اور اس کے سایہ میں بیٹھنے کا ارادہ کیا تو اس کی ٹہنیوں میں سے ایک نے میرے چمڑے کے تھیلے کو پکڑلیا تو وہ بچا کچا پانی بھی بہہ گیا جس سے مجھے زندگی کی کچھ امید تھی تو مجھے ہلاکت کا یقین ہوگیا اور میں نے اپنے آپ کو درخت کے سایہ میں ڈال دیا اور ملک الموت کے انتظار میں لگ گیا تاکہ میری روح قبض کرے تو میں نے اچانک ایک غمگین آواز سنی جو غمگین شخص کے دل سے نکل رہی تھی۔وہ کہہ رہا تھا: الٰہی سیدی مولائی! اگر آپ مجھ سے راضی ہیں تو آپ اس کو مزید بڑھادیں تاکہ ارحم الراحمین آپ مجھ سے راضی ہوجائیں۔

میں اٹھا اور اس آواز کی طرف چلنا شروع کردیا تو میں ایک حسین چہرہ حسین صورت آدمی کے پاس پہنچ گیا جو ریت پر پڑا ہوا تھا اور گدھ اس کو چاروں طرف گھیرے ہوئے تھے اور اس کے گوشت کو نوچنا چاہتے تھے میں نے اسے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اور مجھے کہا: اے ذوالنون! جب توشہ سفر ختم ہوچکا اور پانی بہہ چکا تو موت اور فنا ہونے کا یقین کر بیٹھا تو میں اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور اس کے رونے پر ترس کھایا اور جو میں نے اس کے ساتھ ہوتے دیکھا اس پر رونے لگ گیا بس میں اسی حالت میں تھا کہ کھانے کا ایک پیالہ میرے سامنے تھا اور اس نے زمین پر ایڑی ماری تو پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔اس نے کہا: اے ذوالنون! مجھے تم سے ایک کام ہے اگر اس کو پورا کروگے تو تمہیں اجروثواب ملے ہوگا۔میں نے کہا وہ کیا ہے؟ کہا جب میں مرجاؤں تو مجھے غسل دے دینا اور دفن کردینا اور درندوں اور پرندوں سے چھپادینا پھر چلے جانا جب تو حج ادا کرچکے گا تو بغداد شہر پہنچے گا اور باب الزعفران سے داخل ہوگا تو وہاں پر بچوں کو کھیلتا ہوا پائے گا ان پر رنگ برنگے کپڑے ہوں گے اور تو وہاں پر ایک کمسن نوجوان کو بھی ملے گا جس کو کوئی شے بھی اللہ تعالٰی کے ذکر سے غافل نہیں کر پارہی ہوگی۔اس نے ایک کپڑے کے ٹکڑے سے اپنی کمر کسی ہوگی اور ایک کپڑا اپنے کندھوں پر ڈالا ہوگا۔اس کے چہرے پر آنسوؤں کے آثار سے دو سیاہ لکیریں پڑی ہوں گی جب تو اسے ملے تو یہی میرا بیٹا ہوگا اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا، بس اس کو میرا سلام کہہ دینا۔



حضرت ذوالنون فرماتے ہیں: جب میں اس کی بات سے فارغ ہوا تو اس کو یہ کہتے ہوئے سنا:

اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد ارسول اللہ۔



اور ایک چیخ ماری کہ دنیا کو چھوڑدیا۔رحمۃ اللہ علیہ۔



تو میں کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میرے پاس میرے سامان میں ایک قیض تھا جس کو میں نے اپنے سے دور نہیں رکھتا تھا پس میں نے اس کو اسی پانی سے نہلایا اور کفنایا اور خاک میں چھپادیا اور بیت اللہ شریف کی طرف چل پڑا۔ حج کے اعمال ادا کئے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے نکل پڑا جب زیارت سے فارغ ہوا تو بغداد شہر چل دیا۔پس میں اس میں عید کے دن پہنچا اور بچوں کے پاس گیا جو کھیل رہے تھے اور پر رنگ برنگے کپڑے تھے، پھر میں نے نظر دوڑائی تو وہ نوجوان موصوف بیٹھا ہوا تھا اسے کوئی بھی قیمتی سے قیمتی شے علام الغیوب سے بے توجہ نہیں کررہی تھی، اس کے چہرے پر صدمے ظاہر تھے اور چہرہ پر آنسوؤں کے آثار سے دو سیاہ دھاریاں تھیں اور وہ کہہ رہا تھا۔

الناس کلھم للعید قد فرحوا
وقد فرحت انا بالواحد الصمد

الناس کلھم للعید قد صبغوا
وقد صبغت ثیاب الذل والکمد

الناس کلھم للعید قد غسلوا
وقد غسلت انا بالدمع للکبد

ترجمہ:
1: سارے انسان عید کی خوشی منارہے ہیں اور میں واحد صمد اللہ تعالٰی سے خوش ہوں۔

2:


سارے لوگ عید کیلئے خوشبو لگا کر آئے ہیں اور میں نے ذلت اور بدلی ہوئی رنگت والے کپڑوں کا رنگ لگالیا ہے۔

3:

سارے لوگ عید کیلئے غسل کرکے آئے ہیں اور میں نے جگر کے آنسوؤں کے ساتھ غسل دیا ہے۔

حضرت ذوالنون فرماتے ہیں: میں نے اسے سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب دیا اور کہا: میرے والد کے قاصد کے لئے خوش آمدید۔تو میں نے اسے کہا: آپ کو کس نے بتلایا۔ میں قاصد ہوں اور آپ کے والد کی طرف سے آیا ہوں۔کہا: اس نے جس نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ تو نے میرے باپ کو صحراء میں دفن کیا ہے؟ اللہ کی قسم میرے والد کو سدرۃ المنتہٰی کی طرف اٹھالیا گیا ہے، لیکن تم میرے ساتھ میری دادی کی طرف چلو اور اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور میرے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔جب دروازہ تک پہنچا تو ہلکا سا کھٹکھٹایا اور ایک بڑھیا ہماری طرف کو آئی۔جب اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگی۔ جس نے میرے حبیب اور آنکھوں کی ٹھنڈک کو دیکھا ہیں اس کو خوش آمدید۔میں نے کہا: آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے اسے دیکھا ہے؟ کہنے لگیں: جس نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ تو نے اسے کفن بھی دیا ہے اور یہ کفن تجھے واپس کردیا جائے گا۔اے ذوالنون!مجھے اپنے پروردگار کی عزت و جلال کی قسم!میرے بیتے کے چیتھڑے اللہ تعالٰی ملاء اعلی میں فرشتوں کے سامنے فخر فرمارہا ہے۔



پھر کہنے لگی: اے ذوالنون! میری آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کے ٹکڑے، میرے بیٹے کو تو نے کس طرح الوداع کیا ذرا اس کو بیان تو کر۔



میں نے اسے کہا: میں نے اسے بے آب جنگل میں ریت اور پتھروں کے درمیان اکیلے چھوڑا ہے جس کچھ اس نے اپنے پروردگار سے امید باندھی تھی وہ اسے نصیب ہوگئی۔جب بڑھیا نے سنا تو بچے کو اپنے سینے لگالیا اور مجھ سے غائب ہوگئی اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔مجھے معلوم نہ ہوسکا کہ انکو آسمان پر اٹھالیا گیا یا زمین میں اتاردیا گیا۔میں گھر کے کونے چھاننے لگا لیکن ان کو نہ پایا۔



پھر میں نے ایک ہاتف سے سنا: جو یہ کہہ رہا تھا: اے ذوالنون! اپنے آپ کو نہ تھکا، ان کو فرشتوں نے طلب کرلیا ہے لیکن وہ ان کو بھی نہیں مل سکے۔میں نے کہا: پھر وہ کہاں گئے۔کہا کہ شہداء مشرکین کی تلواروں سے فوت ہوتے ہیں اور یہ محبین رب العالمین کے شوق میں فوت ہوجاتے ہیں۔ان کو قادر مطلق بادشاہ کے سچے مقام کی طرف نور کی سواری میں اٹھالیا جاتا ہے۔



حضرت ذوالنون فرماتے ہیں: میں نے چمڑے کا جو برتن گم پایا تھا وہ بھی مل گیا اور وہ کفن جو میں نے اسے پہنایا تھا۔اس کو بھی اسی طرح برتن میں لپٹا ہوا پایا جس طرح سے پہلے لپٹا ہوا تھا۔اللہ ان سے راضی ہو اور ان کی برکات سے ہمیں نفع پہنچائے۔ آمین ثم آمین۔



فائدہ: یہ واقعہ مذکورہ اولیاء کی کرامات پر مشتمل ہے۔جن سے اللہ تعالٰی نے اپنے ان بندوں کو عزت بخشی۔یہ کرامات اللہ تعالٰی کے اختیار میں ہیں جب چاہیں جس کے حق میں چاہیں ظاہر کردیں اور اگر نہ چاہیں تو اولیاء کے حق میں تو کیا انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کے حق میں ان کی طلب کے باوجود ان کے لئے معجزات کو بھی ظاہر نہ کریں اور بعض اوقات ان کی دعاؤں کو بھی قبول نہ کریں، جیسا کہ نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام وغیرہ حضرات انبیاء ومرسلین کی دعائیں بھی قبول نہ فرمائیں۔یہ شان جلالی ہے اور جب عنایت کرنے پر آئیں تو اپنے اولیاء اور نیک بندوں کو بھی بڑی کرامات سے نوازدیں۔اس واقعہ کی مزکورہ کرامات بھی اسی قسم سے ہیں لیکن بعض لوگ ان کرامات کو دیکھ کر بہت سے غلط نظریات اولیاء کرام سے وابستہ کرلیتے ہیں، اللہ تعالٰی ان کو ہدایت عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
یہ واقعہ محدث اعظم حضرت امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف شدہ بَحرالدُموع: آنسوؤں کا سمندر کتاب سے لیا گیا ہے۔

اللہ ہم سب کو نیک راستے پر چلائے
آمین ثم آمین۔
وسلام
محمد زیب خان۔