رنگ برنگے شیشوں کے سب توڑ گئے کاشانے لوگ
کیا جانے کس شہر سے آئے پتھر برسانے لوگ

آج خدا جانے کس دھن میں آئے تھے میخانے لوگ
کم ظرفی شاقی تھی اور توڑ گئے پیمانے لوگ

ہم کو یہ اھساس کہاں تھا ایسے بھی دن آئیں گے
غیروں سے منسوب کریں گے اپنے ہی افسافے لوگ

اپنے گھر کو جلتا دیکھوں کچھ نہ کہوں خاموش رہوں
کیسی کیسی باتیں مجھ سے آتے ہیں منوانے لوگ

میرے زہر میں رہنے والے پاگل ہیں یا پتھر ہیں
گلیاں ساری راکھ ہوئیں تو دوڑے آگ بجھانے لوگ

شہر جنوں میں دیوانے تو اور بھی تھے اے یاد مگر
آئے ہماری سمت ہی پتھر خوب ہمیں پہچانے لوگ