Source: bbc

’انکل میرا ہاتھ کاٹ دو مگر مجھے یہاں سےنکال لو‘ بارہ سالہ علینا چیخ چیخ کر امدادی کارکنوں کو پکار رہی تھی جو بوگی نمبر چھ کو کاٹ کر اندر پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کی سر توڑ کوششیں کر رہے تھے۔
عید کی چھٹیاں گھروں میں گزارنے کی امیدیں لیے سینکڑوں مسافروں سے کھچا کھچ بھری کراچی سے لاہور جانے والی کراچی ایکپریس بدھ کی صبح سندھ کے دور دراز علاقے محراب پور کے قریب حادثے کا شکار ہوئی تھی۔

ٹرین کو حادثہ منگل اور بدھ کی درمیان رات ڈھائی بجے پیش آیا تھا اور صبح کو دس بجے تک بوگیوں کے اندر پھنسے ہوئے مسافر کو نکالا نہیں جا سکا تھا۔

ریلوے حکام کرین اور امدادی ٹرین کےانتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری طرف امدادی کاموں میں سرگرداں مقامی لوگ دستی اوزاروں سے ٹرین کی موٹی چادریں کاٹنے میں ناکامی سے پریشان ہو کر بار بار آکر بتا رہے تھے کہ ’بوگی کےاندر چند لوگ زندہ ہیں ان کی آوازیں آ رہی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں یا تو ہمیں باہر نکالیں یا ختم کردیں۔‘


ایک امدادی کارکن نےبتایا کہ بوگی کے اندر پھنسے ہوئے لوگ چلا چلا کر مدد کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’بوگی کے اندر ہمارا دم گھٹ رہا ہے۔‘

اس امداری کارکن کا کہنا تھا کہ اندر ایک بچی کا ہاتھ بوگی کےایک حصے میں بری طرح پھنس ہوا ہے اور وہ بوگی کی ایک سیٹ سے لٹک رہی ہے۔ دیگر زندہ مسافروں نے بچی کو ہاتھ سے سہارا دیا ہوا ہے۔ بوگی کاٹے بغیر بچی کو نکالا نہیں جا سکتا مگر مشینیں نہیں ہیں۔

امدای کارکن کا کہنا تھا کہ بچی زور زور سے رو رہی تھی اور فریاد کر رہی ہے لیکن امدای کام میں مصروف تمام لوگ ننھی مسافر کی فریاد پر بے بس اور خاموش کھڑے تھے۔ انہیں ریلوے کی امدادی ٹرین کا انتظار تھا جس کے ساتھ کرین اور بڑے کٹر پہنچنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

امدای کارکنان تو انتظار کے سوا کیا کرتے مگر بوگی میں پھنسے مسافر انہیں بار بار باہر نکالنے کی فریاد شاید اس لیے بھی دہرا رہے تھے کہ انہیں پاکستان ریلویز کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔

ادھر بوگی کے اندر آٹھ گھنٹوں سے پھنسی ہوئی بچی علینا رو رو کر اب خاموش ہو چکی تھی ادھر محرابپور دیہی صحت مرکز میں چار پائی پر اپنے تین زخمی بچوں کے ہمراہ اداس بیٹھی بیوہ فرح زیبا علینا کے لیے رو رہی تھیں اور انہیں کسی طرح قرار نہیں آ رہا تھا۔



فرح نے بتایا کہ گیارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کےمسافروں کا گروپ کراچی سے لاہور جا رہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ بیوہ ہونےکے بعد اپنے بھائیوں کےہمراہ یہ ان کی پہلی عید تھی مگر ریل حادثے نہ سب کچھ ختم کر دیا۔

بارہ بستروں پر مشتمل محرابپور صحت مرکز جائے حادثہ کے قریب واحد طبی سہولت ہے۔

دیہی صحت مرکز محرابپور کے تمام کمرے حادثے کے زخمیوں، لاشوں اور امدادی کام کرنے والوں سے بھرے ہوئے تھے۔

صحت مرکز کے ایک کمرے میں، جو کہ مردہ خانہ نہیں تھا، بدھ کی صبح دس بجے تک انیس لاشیں رکھی ہوئی تھیں۔ لاشوں سے بھرے کمرے کے دروازے کےنزدیک ایک نوجوان خاموش کھڑا تھا۔ وہ ادھر ادھر دیکھنے کے باوجود کسی کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔

جب اُس سے بات کرنی چاہی تو وہ آنسووں پر قابو نہ پا سکا اور اس کا چہرہ آنسووں سے تر ہو گیا۔ اُس نے ہاتھ جوڑ کر دور رہنےکی گزارش کی۔ دوسرے مسافروں نے بتایا کہ اُس کے والد کی لاش کمرے کےاندر پڑی ہے اور وہ لاہور سے آنے والے اپنے بھائی کے انتظار میں ہے۔

ایک نوجوان طالب علم صحت مرکز کی ڈسپنسری کے دروازے کےسامنے فرش پر رضائی اوڑھے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ مہران یونیورسٹی جامشورو کے سول انجنئرنگ شعبے میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا۔


خالد اپنے والد کےساتھ آبائی شہر ہری پور ہزارہ جا رہے تھے کہ حادثہ پیش آیا۔ انہوں نےبتایا کہ انہیں اپنے والد کی فکر ہے کیونکہ انہیں والد کا پتہ زخمیوں میں مل رہا ہے نہ میتوں میں۔

صحت مرکز میں زخمی مسافروں کے لیے مقامی آبادی کی خواتین اور مرد اپنے گھروں سے چائے اور گرم کپڑے رضائیاں لا رہے تھے۔

جائے حادثہ پر پولیس، رینجرز اور فوجی جوان بڑی تعداد میں موجود تھے۔ فوج اور رینجرز کی موجودگی کےبارے میں امدای کاموں میں مصروف مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ساتھ کوئی مشینری نہیں لائے۔ مقامی کارکنوں اُن سے امدادی کاموں میں مدد نہ کرنے پر شاکی نظر آئے۔

مقامی پولیس کے مطابق بدھ کےروز ریلوے کی روہڑی سے روانہ کردہ امدای ٹرین اپنے ساتھ جو کرین لائی وہ ناکارہ تھی اور شام کے وقت کرین کو واپس کردیا گیا تھا۔

ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے امدادی کام بارہ گھنٹوں کےلیے معطل کردیا گیا اور وہ جمعرات کی صبح دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

حادثے کے بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد بوگی میں پھنسی ہوئی تین سالہ علینا کو زندہ سلامت باہر نکال لیا گیا۔ انہوں نےکہا کہ بوگی کو کاٹنےکی تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد امدای کارکنوں نے بوگی کےاندر جانے کا راستہ بنایا اور علینا سمیت پانچ زخمیوں اور دو مسافروں کی لاشیں باہر نکالیں گئیں۔


ریلوے حکام کےمطابق ریلوے ٹریفک کلیئر کرنے کے بعد کراچی اور باقی ملک کے درمیان ریلوے ٹریفک بحال کردی گئی ہے۔ جبکہ جائے حادثہ سے ملبہ ہٹانے کا کام تا حال جاری ہے۔

جائے حادثہ پر ریلوے کی امدادی ٹرین اور کرین جمعرات کی دوپہر تک نہ پہنچ سکی تھی۔ مقامی انتظامیہ نے ٹریکٹرز منگواکر گری ہوئی بوگیوں کو سیدھا کرنےکا کام شروع کردیا ۔

پاکستان ریلویز سکھر کے ڈویژنل سپرانٹنڈنٹ امین خالد سے جب امدادی ٹرین میں تاخیر کی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ریل کی ٹریفک بحال کرنا چاہتے ہیں اور ایک ٹریک سے باقی ٹرینوں کو گزرنے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر باقی ایک ٹریک پر بھی امدادی ٹرین کھڑی کردیں تو دوسری ٹرینیں کہاں سے گزریں گی۔

وہ بہت سے دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف درست ثابت کرنےکی کوشش کر رہےتھے مگر میں بوگی نمبر چھ میں ہی پھنس چکا تھا جہاں ایک بچی علینا بارہ گھنٹوں سے زندگی اور موت کی کشمکش میں لٹکی ہوئی تھی۔

باقی دنیا میں ٹرین کا سفر کتنا ہی آرامدہ اور لطف اندوز کیوں نہ ہو مگر محرابپور جیسے ریل حادثات پاکستان میں ہمیں اس تلخ حقیقت کا بار بار احساس دلاتے ہیں کہ ٹرین میں سوار ہونا موت کے ڈبےمیں سوار ہونے کے برابر ہے۔

کیا علینا جیسی بچیاں بڑی ہوکر کبھی پاکستان ریل میں سفر کر سکیں گی ؟ اس سوال پر علینائیں اور ان کےوالدین تو سوچ سکتے ہیں مگر پاکستان ریلویز نہیں کیونکہ بقول ایک زخمی مسافر پاکستان ریلوے لیٹ ٹرینیں روانہ کرنے اور حادثات کی عادی بن چکی ہے۔ وہ کسی بھی بڑے حادثے کو بہت آرام سے انکوائری کمیٹی کےحوالےکردیتے ہیں اور نتیجہ چند سالوں کےبعد ایک اور حادثےکی صورت میں نکلتا ہے۔