بسم اللہ، والحمد للہ والصلاۃ والسلام علیٰ رسول اللہ! ... اما بعد!
اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے اللہ کو ڈائریکٹ بغیر کسی واسطہ کے پکارنا چاہیے ﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾ ... سورة غافر: 60 کہ ’’تمہارا رب کہتا ہے "مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘
جب صحابہ کرام﷢ نے اس کے متعلّق نبی کریمﷺ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ ... سورة البقرة: 186 کہ ’’اور اے نبﷺ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔‘‘
اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، پھر وسیلہ ڈالنے کی ضرورت!
گویا اللہ تعالیٰ ہم سے دور نہیں کہ ہمیں کسی اور کا وسیلہ ڈالنے کی ضرورت پڑے، اللہ تعالیٰ ہم سے بہت قریب ہیں : ﴿ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾ ... سورة هود: 61 کہ ’’وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے لہٰذا تم اس سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ﴾ ... سورة سبأ: 50 کہ ’’کہو اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اُس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اوپر نازل کرتا ہے، وہ سب کچھ سنتا ہے اور قریب ہی ہے۔‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴾ ... سورة الواقعة:85 کہ’’اُس وقت تمہاری (ورثا کی) بہ نسبت ہم (اللہ تعالیٰ) اُس (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہہ کر بات کی ختم فرما دی ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾ ... سورة ق:16 کہ’’ہم اس (انسان) کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اُس سے قریب ہیں۔‘‘
دُعا میں فوت شدگان کا وسیلہ ڈالنا شرک کی ایک نوع اور اللہ ہی توہین ہے!