کائنات کے اسرار شروع زمانے سے ہی انسان کو حیران اور مسحور کرتے رہے ہیں۔ آسمان پر نظر آنے والے ستاروں، سیاروں کا تعلق کبھی اس نے دیوتاو¿ں سے جوڑا اور کبھی اس نے ان کی مدد سے قسمت کا حال تلاش کرنا شروع کیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ دنیا اصل میں ایک چپٹی طشتری ہے جو ایک بہت بڑے کچھوے کی پشت پر دھری ہے، وہیں کچھ لوگوں کو چاند پر ایک بوڑھی عورت چرخہ کاتتی ہوئی نظر آتی۔
جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی گئی ویسے ویسے کائنات کے بارے میں بھی معلومات بڑھتی گئیں۔ موجودہ دور کا انسان جانتا ہے کہ کس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور کس طرح سورج ستاروں کے گرد گردش کرتا ہے۔ نظام شمسی، کہکشائیں کس طرح ایک متعین ضابطے اور قوانین کے تحت اپنے کام کر رہے ہیں۔ بیسویں صدی میں جہاں کائنات کے کئی اسراروں سے پردہ اٹھا، وہیں کائنات کے اب تک کے معلوم سب سے عجیب مظہر کی نشاندہی ہوئی۔ یعنی فلکیات کے میدان میں بلیک ہول (تاریک غار) کی اصلاح سامنے آئی، جس نے ماہرین فلکیات کو معمے میں ڈال دیا۔
بلیک ہول یعنی ایک ایسا ستارہ جو بہت زیادہ کمیت رکھتا ہو اور ٹھوس ہو، وہ تجاذب کے اتنے طاقتور میدان کا حامل ہوگا کہ اپنے نزدیک کی ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لے گا یہاں تک کہ اس کی سطح سے روشنی بھی باہر نہیں جا سکے۔ ایسے ستارے یا اجسام بالکل سیاہ ہوتے ہیں۔ ان کی سطح سے کسی قسم کی روشنی کے اخراج نا ہونے کے باعث انہیں دیکھا نہیں جا سکتا۔ مگر ان کے تجاذب کی کشش کی وجہ سے ان کا وجود محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق کائنات میں اس طرح کے ستارے بڑی تعداد میں ہیں۔
بلیک ہولز کیا ہیں، کیسے بنتے ہیں، ان کے بارے میں معلومات کیسے حاصل کی جائیں اور ان جیسے دیگر کئی سوالات بیسویں صدی سے ماہرین فلکیات کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ان پر ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں بلیک ہولز کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے ہیں اس تحقیق اور نظریات کی روشنی میں ان کے بارے میں معلوماتی تصویر کچھ اس طرح بنتی ہے۔
ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر بلیک ہولز میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی بڑا ستارہ اپنی زندگی کے اختتام پر ایک بڑے دھماکے سے پھٹتا ہے۔ اس دھماکے کو “سپر نووا” کہا جاتا ہے۔ اس سپر نووا کے نتیجے میں ستارے کا بڑا حصہ خلا میں بکھر جاتا ہے۔ باقی رہ جانے والا حصہ بالکل ٹھنڈا ہوتا ہے جہاں فیوڑن کا عمل نہیں ہو سکتا۔اس ٹھنڈے حصے میں کشش کی قوت بڑھتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کا حجم کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور کثافت بڑھنے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب ستارے کا حجم گھٹتے گھٹتے صفر ہو جاتا ہے اور کثافت اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہاں سے روشنی کا اخراج بھی ممکن نہیں رہتا۔ اپنی زندگی کے اختتام پر جب کوئی ستارہ ایسی حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو بلیک ہول کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس حالت میں وہ ستارہ ایسے پراسرار سوراخ کی مانند ہوتا ہے جس کی کشش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
سائنسدانوں کے نزدیک یو ایل ایکس ایک بلیک ہول ہو سکتا ہے۔ یہ زمین سے بتیس ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔بلیک ہولز کی جسامت بہت کم ہوتی ہے، مثال کے طور پر سورج کے برابر کمیت رکھنے والے بلیک ہول کا نصف قطر صرف تین کلو میٹر ہوگا۔ تاہم کائنات میں انتہائی بڑے بلیک ہولز بھی پائے جاتے ہیں جن کی کمیت ایک سو ارب ستاروں کے برابر ہو سکتی ہے۔ یہ چھوٹے بلیک ہولز کے مشابہ ہی ہوتے ہیں تاہم ان میں بہت زیادہ مقدار میں مادے کی موجودگی کی وجہ سے ان کی جسامت بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔ نیز ان میں مادے کی مقدار کی زیادتی کی وجہ سے کشش بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
ایسے بڑے بڑے بلیک ہولز مختلف کہکشاو¿ں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے کئی برسوں کی تحقیق کے بعد ہماری کہکشاں کے مرکز میں بھی ایسا ہی ایک بلیک ہول دریافت کیا ہے۔ تاہم کائنات کے اس عجیب ترین مظہر کے بارے میں کھوج مسلسل جاری ہے۔ نئی تحقیق اور نظریات کے مطابق بلیک ہولز اندازے سے بھی زیادہ عجیب ہیں۔
بلیک ہولز کے بارے میں پیش کردہ حالیہ جدید ترین نظریے کے مطابق کائنات میں پائے جانے والے بلیک ہولز دراصل کسی دوسری کائنات تک پہنچنے کے لئے راستے یا دروازے کا کام کرتے ہیں۔ یہ نظریہ بلیک ہولز کے بارے میں پیش کردہ ابتدائی نظریے،ایسا جسم جو لامحدود کشش کا حامل ہو اور اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو اپنے اندر ضم کر رہا ہو، کے برعکس ہے۔
اس نظریے کے مطابق بلیک ہولز کی حیثیت کسی تاریک غار کی بجائے دو کائناتوں کے درمیان ایک سرنگ کی سی ہے۔ ان کی بے انتہا کشش کی وجہ سے جو مادہ ان میں جا گرتا ہے وہ تمام مادہ بلیک ہول کے اندر جمع ہونے کی بجائے دوسری طرف سے باہر نکل جاتا ہے۔
بالفاظ دیگر ایک بلیک ہول میں جمع ہونے والی کہکشائیں، ستارے، سیارے دوسری طرف ایک دوسری کائنات کی تشکیل میں استعمال ہو جاتے ہیں۔ یعنی بلیک ہولز، اصل میں بلیک ہولز نہیں بلکہ وورم ہولز ہیں۔
اگر اس نظریے کو درست مان لیا جائے تو کائنات کی تشکیل کے بارے میں پیش کیا گیا بگ بینگ کا نظریہ غلط ہو جاتا ہے۔ یعنی جس کائنات کا ہم حصہ ہیں اس کی تشکیل کسی بڑے دھماکے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی بلیک ہول سے اخراج شدہ مادے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ تاہم یہ نظریہ درست ثابت ہوتا ہے یا اس کی جگہ لینے کے لئے کوئی اور نیا نظریہ سامنے آتا ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت اور اس موضوع پر ہونے والی تحقیق ہی کرے گی۔ لیکن یہ بات اس وقت تک مسلم ہے کہ بلیک ہولز کائنات کے سب سے پر اسرار اجسام ہیں جن کا کھوج لگانے میں سائنس کو بے حد دشواریاں ہو رہی ہیں۔ کائنات کا نظام بہت پیچیدہ ہے اور اسی لئے اس کو سمجھنا نہایت مشکل ہے۔
_