لفظ "قد خلت" سے وفات مسیح علیہ السلام نہیں ثابت ہوتی
قادیانی اعتراض :قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ تمام رسول گذرگئے لہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی وفات پاگئے ۔قادیانی یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ الخ اٰل عمران 144
ترجمہ : اور محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم تو ایک رسول ہی ہیں بلاشبہ آپ سے پہلے بھی کئی رسول ہوچکے ہیں ،کیا پھر اگر آپ فوت ہوجائیں یا شھید ہوجائیں تو تم پچھلے پاﺅں (دین سے)پلٹ جاﺅگے ،یاد رکھو جو کوئی پچھلے پاﺅں پھر جائے تو وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ نہیں سکتا (اور ایسے حادثات میں ثابت قدم وہ کر دین کے پابند اور خادم رہیں گے)توایسے شکر گذاروں اور قدردانوں کو اللہ تعالیٰ عنقریب ان کے بدلے اور صلے سے نوازے گا)
یہ آیت کریمہ مرزا قادیانی کی پیش کردہ تیس آیات میں سے دوسری قسم کی ہے یعنی وہ آیات جن میں مسیح کی موت وحیات کا ذکر نہیں بلکہ بعض وجوہ کی بنا پر دوسرے انبیاءکا تذکر ہ ہے ۔۔۔مرزا صاحب نے اس عموم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان میں شامل کرکے محض سینہ زوری سے اپنا نظریہ(وفات مسیح علیہ السلام) ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
الجواب:
یہ آیت کریمہ واقعہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی جب گھاٹی والے حفاظتی دستے میں سے اکثر افراد نے اس خیال سے وہ مورچہ چھوڑ دیا کہ اب ہماری فتح مکمل ہوچکی ہے کفار کے کسی بھی حملہ کی کوئی توقع نہیں رہی لہذا یہاں کھڑے رہنا بلاضرورت ہے ،اس بنا پر جب انہوں نے وہ مورچہ چھوڑ دیا تو لشکر کفار کے ایک قابل ترین جرنیل خالد بن ولید (جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) انہوں نے موقعہ پاکر اسی گھاٹی سے حملہ کردیا جس سے مسلمانوں کی فتح وقتی ہزیمت میں بدل گئی ہر طرف افراتفری پھیل گئی کئی اہم صحابہ کرام شہید ہوگئے حتی کہ اس یلغار میں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوئے اس پر کفار نے افوہ پھیلادی کہ محمد(صلیٰ اللہ علیہ وسلم) شہید ہوگئے یہ سن کر کئی مسلمان ہمت ہار گئے لیکن آخر کار میدان کا رزار سیٹ ہوگیا اور کفار دوبارہ بھاگ کھڑے ہوئے تو اس موقعہ پر یہ خیال بھی پھیل گیا کہ( منافقین کی طرف سے ) کہ اگر آپ رسول برحق ہوتے تو کیوں شھید ہوتے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ فرمایا کہ موت رسالت کے منافی نہیں کہ رسول ہمیشہ زندہ ہی رہتا ہے ۔دیکھئے اس سے پہلے کئی رسول آئے مگر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
تو گویا اس آیت سے میں یا ثابت کرنا ہے کہ رسالت اور موت میں منافاة نہیں لہذا اگر محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو ایسا ہوسکتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے لیکن پیغمبر کی تعلیم اور مشن رسول کا کوئی ذاتی معاملہ نہیں کہ اس کے فوت ہوجانے سے وہ بھی ترک کردیا جائے بلکہ وہ تو ایک الٰہی سلسلہ ہے ،چونکہ اللہ تعالیٰ حق قیوم ہے اور اس کی تعلیمات بھی باقی رہیں گی لہذا ایسے حوادث سے پریشان ہوکر بدل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اشاعت حق کی جدوجہد جاری رکھنا چاہیے اسے کسی بھی حالت میں منقطع یا مدہم نہیں ہونا چاہیے ۔
آیت مبارکہ کا ماسبق و مالحق ملاحظہ فرما کہ اصل حقیقت ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں تو محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شھادت عدم شھادت کا معاملہ ہے کہ آپ ابھی شہید نہیں ہوئے لیکن بالفرض آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم شہید ہوجائیں یا فوت ہوجائیں تو بھی تمہاری یہ بددلی مناسب نہ تھی کیوں کہ یہ جدوجہد تو خدائی تعلیمات کی راہ میں ہیں ۔
فرمائیے کہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و وفات کا مسئلہ کہاں آگیا ؟؟؟ (نہ عبارتہ ً نہ اشارتہً) نہ تم عموم و اقتضا سے یہ ثابت کرسکتے ہو کیوں کہ آپ کی حیات کے اثبات میں میں دیگر نصوص قطعیہ الگ موجود ہیں نیز بے شماراحادیث اور اجماع امت بھی جلوہ افروز ہے لہذا قادیانیوں کی یہ مغز ماری بے کار ہے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ”خلت“ کا معنی موت دنیا کی کسی لغت میں نہیں ۔
قادیانی ”قد خلت “ کا معنی موت لیتے ہیں ۔۔۔جبکہ یہ معنی ہرگز ثابت نہیں ۔۔۔۔ہمارے محاورہ میں ”خلت “کا مفہوم گذرنا ہے ۔۔۔ ۔ دیکھئے محاورہ میں ”فضا “ کو ”خلاء“ کہتے ہیں ۔۔۔۔ازرﺅے لغت خلاءمکان یا زمان کی صفت ہے ۔۔۔اور ضمنا ان کے مظروف کی ۔۔۔۔امام لغت راغب اصفہانی متوفی 506 ھ اپنی مشہور زمانہ کتاب المفردات میں لکھتے ہیں کہ ”الخلا ایسے مقام کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی اوٹ کوئی تعمیر اور دیگر کوئی بھی چیز نہ ہو ۔۔۔۔اس کا استعمال زمان و مکان دونوں کے لئے ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ الخ الرعد 6
(ترجمہ :یقیناً ان سے پہلے سزائیں (بطور مثال) گزر چکی ہیں)
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ الخ البقرہ 141
(ترجمہ :یہ امت ہے جو گزرچکی)
قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ الخ اٰ عمران 137
(ترجمہ : تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں)
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ الخ فاطر 24
(ترجمہ :اور کوئی امت ایسی نہیں گذری جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو)
وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم الخ البقرہ 214
(ترجمہ :جبکہ ابھی نہیں پیش آئے تم کو احوال ان لوگوں کے سے جوہو گذرے ہیں تم سے پہلے )
وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ الخ اٰل عمران 119
(ترجمہ :اور جب تنہائی میں ملتے ہیں (باہم ) تو چبانے لگتے ہیں تم پر اپنی انگلیا ں مارے غصے کے)

کیا ان تمام مقامات پر خلا کا معنی موت لیا جاسکتا ہے ؟؟؟۔۔۔چاہے اس کا صلہ الی ہو یا بہ ہو یا معہ ہو ۔۔۔نہیں بلکہ بنیادی معنی وہی خلو اور ترک ہی ہوگا ۔۔۔چناچہ صاحب المنجد نے بھی تمام تفصیل میں یہی مفہوم بیان کیا ہے ۔
کیا مذکورہ بالا قرآنی امثلہ جیسے ”قد خلت من قبلھم المثلت “ ۔۔۔۔”قد خلت من قبلھم سنن“ وغیرہ میں معنی موت کا تصوربھی ہوسکتا ہے ؟؟؟
ایسے ہی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا جاتا ہے ” عشرہ خلون من شعبان “ ۔۔۔تو کیا معنی ہوگا ؟؟ گزرنا یا موت ؟؟؟
گویا قادیانی معنی سراسر خلاف ہے اگر مجازا ہوبھی تو اس سے کیسے لازم آگیا کہ یہاں بھی معنی موت ہی ہے ۔۔کیوں کہ دیگر نصوص صریحہ قطیعہ نے آپ کا مرفوع الی السماءہونا واضح کردیا ہے لہذا موت لینا قطعا غیر معقول ہے ۔۔کیوں کہ قطعیت کے مقابلہ میں ظنیت نہیں ٹہر سکتی ۔
ان ظن لا یغنی من الحق شیئا

اور دوسرا قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ بالفرض اگر قد خلت کا مفہوم موت لے بھی لیا جائے تب بھی قادیانیوں کا مدعا ثابت نہیں ہوتا ۔۔۔ کیوں کہ قادیانیوں کا سمجھنا ہے” قبلہ الرسل“ میں الف لام استغراقی ہے ۔
جبکہ بقول خود مرزا صاحب کے ہر جگہ کل استغراق کے لئے نہیں ہوتا ۔
مرزا صاحب اپنی کتاب ”ایک عیسائی کے تین سوال کے جواب “میں”وما نرسل بالایات الا تخویفا “ کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہاں الف لام استغراقی نہیں ہے۔(دیکھئے ص 14)
نیزمرزا لکھتا ہے کہ :”واذا الرسل اقنتاور جب رسول وقت مقررہ پر لوٹ جائیں گے ۔یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے اور اس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا اور یاد رہے کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطمینان پایا جاتا ہے ۔۔۔۔اور اذا الرسل اقنت میں الف لام عہد خارجی پر دلالت کرتا ہے “(شھادہ القرآن ص 20 طبع لاہور )
دیکھیے یہاں اکثر بھی نہیں بلکہ فرد واحد مراد لیا ہے ۔
اب قرآن پاک سے مثال ملاحظہ فرمائیں :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ “البقرہ 87
(ترجمہ :ہم نے (حضرت) موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے (حضرت) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی)
فرمائیے یہاں بھی الرسل ہے تو کیا تمام کے تمام رسول موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہی آئے ۔۔۔ان سے پہلے کوئی نہیں آیا تھا؟؟
اور پھر "البینات “ پر بھی الف لام ہے کیا یہ استغراقی ہے ۔۔۔۔کیا تمام کے تمام معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کو مل گئے اور کسی کو کوئی معجزہ نہ ملا ؟؟؟
یہ ہے قادیانی علم ؟؟؟
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ”من قبل الرسل “میں الف لام استغراقی نہیں کیوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا استثناءنصوص قطعیہ سے ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔۔۔ویسے بھی سالبہ کلیہ کی نقیض موجبہ جزئیہ ہے ۔۔۔موجب کلیہ نہیں ۔

۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔