حضرت ابن جوزی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کو ایک مصیبت پیش آئی بہت دعائیں کیں لیکن قبولیت کا اثر نہ دیکھا تو شیطان نے اپنی چالوں کا جال بنناشروع کر دیا۔ چنانچہ کبھی کہتا کہ خدا کا کرم بڑا وسیع ہے اور اس سے بخل کا امکان نہیں ہے پھر قبولیت میں تاخیر کی وجہ کیا ہے ؟
اس موقع پر میں نے شیطان سے یہ کہہ دیا کہ دور ہو ملعون؟ مجھے تجھ سے فیصلہ کرانا ہے اور نہ تجھ کو وکیل بنا نا چاہتا ہوں اور اپنے نفس سے کہا کہ خبر دار ! شیطان کے وسوسوں کو جگہ مت دینا کیونکہ اگر قبولت کی تاخیر میں اس کے سوا کوئی اور حکمت نہ ہو تجھ کو شیطان لعین کے مقابلہ میں آزمایا جائے تو یہی کا فی ہے ۔
نفس نے کہا ! اچھا تو پھر مجھے اس معاملہ میں جس میں مبتلا ہوں تا خیر کی حکمت بتلا کر تسلی کر دیجئے ۔
میں نے کہا دلیل سے ثابت ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہیں اور مالک کو دینے اور نہ دینے دونوں کا اختیار ہوتا ہے ۔ لہذا اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے ؟
دوسری بات یہ ہے کہ اس کا حکیم ہونا مضبوط دلائل سے ثابت ہو چکا ہے ۔ لہذا ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اپنی مصلحت سمجھو لیکن اس کی حکمت کا تقاضا اس کے خلاف ہو ( اس کی حکمت تم پر ظاہر نہ ہو ) چنانچہ طبیب جو تد بیریں مصلحتا اختیار کرتا ہے بظاہر تکلیف دہ بھی ہوتی ہیں اور اس کی حکمت مریض سے مخفی رہتی ہیں ۔سو ممکن ہے کہ میرا یہ معاملہ بھی ایسے ہی معاملات میں سے ہو ۔
تیسری بات یہ کہ کہ کبھی تاخیر ہی مصلحت ہوا کرتی ہے اور جلد بازی نقصان دہ ۔ چنانچہ حضرت سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ''انسان جب تک جلد بازی نہ شروع کردے کہ کہنے لگے میں نے دعا کہ لیکن قبول نہ ہوئی ۔اس وقت تک تاخیر میں رہتا ہے ''
چوتھی بات یہ ہے کہ کبھی عدم قبولت خود تیرے اندر پائے جا نے والے کسی سبب سے ہوتی ہے ، ممکن ہے تیری غذا مشتبہ ہو یا تیرا دل دعا کے وقت غافل رہتا ہو یا تیری ضرورت روک کر اس گناہ کی سزا میں اصافہ مقصود ہو جس سے تو نے سچی تو بہ نہ کی ہو ۔
چنانچہ ان چاروں با توں پر غور کر نے سے دل کو سکون حاصل ہو جاتا ہے ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اپنے اس مطالبہ کے مقصود کی تحقیق کرو ۔ ممکن اس کے حامل ہو نے کی تقدیر پر گناہ میں اضافہ ہو جائے یا وہ کسی مرتبہ خیر سے پیچھے رہ جانےکا ذریعہ بن جائے تو ایسی صورت میں دعا قبول نہ ہو نے ہی میں مصلحت ہے ۔
بعض سلف کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جہاد کی دعا کرتے تھے ان کو ایک غیبی آواز نے پکارا کہ اگر تم جہاد کروگے تو قید کر لئے جاؤ گے اور اگر قید ہوئے تو نصرانی ہو جاؤ گے ۔
چھٹی بات یہ ہے کہ محرومی ذریعہ بنجاتی ہے بارگاہِ خدا وندی میں بار بار کی حاضری اور التجا کا اور اس کا حصول سبب ہو جاتا ہے خدا سے غفلت اور لا پرواہی کا ۔ اور دلیل یہ ہے کہ اگر یہ مصیبت نہ آتی تو اس وقت ہم تمہیں التجا کرتا ہوا نہ دیکھتے ۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام بہت زیادہ رونے والے پیغمبر گزرے ہیں انہوں خواب میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی اور عرض کیایا اللہ تعالیٰ ! میں آپ سے دعائیں کرتا ہوں لیکن آپ قبولیت کا اثر ظاہر نہیں فر ماتے ؟
اللہ تعالیٰ ایے یحییٰ ( علیہ السلام ) مجھے تمہارے رونے کی آواز سننا بہت پسند ہے ۔
جب دعا کے قبول میں دیر کے ان اسباب میں غور کر لو ایسے کام میں مشغول ہو جاؤ جو تمہارے لئے نفع بخش ہوں ۔اپنی کوتا ہیوں اور کمزوریوں اور کسلمندی کو دور کرو ۔ اللہ تعالیٰ کے دربا ر میں معذرت کرو بار بار عاجزی کرو ۔التجائیں کرتے رہو ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے والا بنا ئے ۔