درد۔دل،آہ وفُغاں، آنکھوں میں نم دے جائے گا
زندگی بھر کا مُجھے ایسا وہ غم دے جائے گا

میرا دُشمن دوستی کا حق ادا کر دے گا یوں
چھیں کر تلوار مُجھ سے پھر قلم دے جائے گا

بے وفائی کا گلہ اُس سے بھلا میں کیا کروں
ہے مُجھے معلوم وہ اپنی قسم دے جائے گا

دم وہ بھرتا ہے زبانی، وقت آنے پر مگر
دم میں دم آتا ہے جس سے دم میں دم دے جائے گا

آئنے سے لے نہیں سکتا کوئی بھی انتقام
ایک ٹُوٹے گا ہزاروں کو جنم دے جائے گا

ہے عجب وہ پیار کا سوداگر کہ سب کے سامنے
پوُرا تولے گا اگچہ پھر بھی کم دے جائے گا

آرزو، اُمید و یاس ، اور اشتیاق و حسرتیں
جو بھی دے جائے گا با لُطف و کرم دے جائے گا

گُتھیاں وہ پیار کی لمحوں میں سُلجھا دے کبھی
اور سیدھی بات کو بھی پیچ و خم دے جائے گا

جانتا ہُوں میں کہ وہ مُجھ سے ملے گا کل ضرور
مل کے لیکن پھر صبا کل کا بھرم دے جائے گا