اس جہاں میں خوشی سے زیادہ ہے غم
قہقوں سے پوچھ لو
آنسوؤں سے پوچھ لو

سیدھے راستے زیادہ ہیں کہ پیچ وخم
حادثوں سے پوچھ لو
منزلوں سے پوچھ لو

زندگی پہ یوں تو ہر کوئی نثار ہے
آدمی کو آدمی سے کتنا پیار ہے
کون کس کے واسطے ہے محترم
دوستوں سے پوچھ لو
دشمنوں سے پوچھ لو

ان ہی خوبیوں میں ہیں خرابیاں بڑی
وقت سے کریں خطاب روک کر گھڑی
بے حسی بھی کھا رہی ہے ہوش کی قسم
نیتوں سے پوچھ لو
مقصدوں سے پوچھ لو

کس کے دل کی آگ نے ضمیر کو چھوا
کون اپنے سامنے جواب دہ ہوا
جرم بے شمار ہیں ،عدالتیں ہیں کم
مجرموں سے پوچھ
منصفوں سے پوچھ لو