آسام میں . میں نے کیا دیکھا - از عبداللہ ) تاریخ 15 فروری 2013 ایک مقامی اخبار ( انڈیا) میں یہ مضمون چھپا ہے .

آسام - انڈیا - کے احوال ایک سچی حقیقت اور نظروں سے دیکھے ہوئے احوال ہیں.

2002 سے لیکر آج تک میں نے ہندوستان میں کئی سفر کیے ہیں. مگر مسلمان جن پریشانیوں کی حالت میں آسام (انڈیا ) میں ہیں میرے خیال کے مطابق دنیا کے کسی بھی خطہ میں نہیں ہونگے. ہاں انڈیا میں مسلمان ( انڈیا کی) رپورٹ کے مطابق 50 پچاس فیصد غریب ہیں. جن حالت میں آسام کے مسلمانوں کو دیکھکر آیا ہوں یہ پڑھکر اگر آپ دردمند دل رکھتے ہیں تو ضرور آپ کی آنکھیں بھیگ جائینگی.

تاریخ 18-12-2012 کو میں احمدآباد ، گجرات سے کلکتہ گیا، وہاں سے بنگال کے اندرونی علاقوں میں گیا . وہاں کے مسلمانوں کی غربت کا ذکر ہی نہیں کرتا . دو دن بنگال میں رہا . پھر وہاں سے گوہاٹی اور گنگا ساگر گیا . وہاں پر بھی دو دن قیام کیا. پھر کلکتہ سے آسام جانے کے لیے نکلا . 22-12-2012 کو ائیر پورٹ پر اترا اور پھر مولانہ اجمل اور دیگر دینی بھائیوں کے ساتھ روانہ ہوا - دوسرے دن اتوار تھا اور اس دن فسادات سے پر اثر علاقوں کا دورہ کرنا تھا . اتوار کو صبح کی نماز کے بعد وہ علاقہ نام " کانکرا مود " کی طرف روانہ ہوئے. میرے ساتھ مقامی تین مسلمان بھی تھے. رستہ میں جاتے ہوئے ہزاروں جلے ہوئے مکانات دیکھے . بہت سی مساجد شہید ہوئی حالت میں دیکھیں . کانکرامود کیمپ میں آکر حیران رہ گیا .

ہزاروں مسلمان مرد ، عورتیں اور بچے بھوک سے تڑپ رہے تھے. میرے آس پاس مجمع لگ گیا اس میں کوئی رو رہا تھا کوئی شکایتیں کر رہا تھا . میں نے ان سے دریافت کیا کے آپ لوگوں کے پاس حکومتی امداد آتی ہے یا نہیں ? انہوں نے جواب دیا کے مشرک حکومت ایک ہفتہ دال چاول وہ بھی ناکافی مقدار میں دیتی ہے اور پھر کئی ہفتہ غائب ہو جاتی ہے. ہاں کبھی کبھی مولانہ بدرادین اجمل کی ٹرسٹ اور جمیعت علمائے ہند کی امداد ضرور پہنچتی ہے. انہوں نے کہا کہ ہم دو ہفتوں سے بھوکے ہیں . پینے کے لیے پانی نہیں اور جو ہے وہ بہت گندہ ہے. بھوک اور پیاس کی تڑپ سے معصوم بچے ماں باپ کی گود میں ہی جان دے دیتے ہیں . میں نے ایک تمبو میں دیکھا کہ ایک عورت مٹی کے چولہے کے پاس بیٹھی ہے ایک برتن میں پانی گرم ہے تقریبا تین سال کا ایک معصوم بچہ ماں کی گود میں بہوشی کی حالت میں پڑا ہے . بچے کو تسلی دینے کے لیے صرف پانی گرم کر رہی تھی . دوسری جگہ ایک عورت کو پیاز گرم کرتے ہوئے دیکھا ، آس پاس تین چار بچے بیٹھے تھے . کھانا پکنے کی راہ دیکھ رہے تھے. غزا کی، پانی کی اور دوائوں کی شدید تنگی تھی . اتنے میں لوگوں کا ایک جگہ سے شور سنائی دیا ، دیکھا تو دو معصوم بچے جانبحق ہو چکے تھے .بہت پریشانی تھی، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ، کسی کو پرواہ نہیں تھی .

اسی طرح ہم الگ الگ تین چار کیمپ میں گئے سب ہی جگہ بد سے بدتر حالات تھے. عصر کا وقت ہوا ہم نے نماز کے لیے کہا . وہاں پر ایک جھوپڑی نما مسجد تھی جسے ان مشرک دہشتگردوں نے جلا دیا تھا. میں نے ان سب سے نماز کے لیے کہا وہ سب تیار ہو گئے . نماز کے دوران ہی ہمیں باہر کیمپ سے شور و غل سنائی دیا . نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھا تو باہر تقریبا 200 انسانوں کا ہجوم تھا . ایک لڑکے نے بتا یا کے مقامی ایم ایل اے صاحب آئے ہیں جو کہ ہندو مشرک تھا . اس نے بتایا کے وہ ہمیں گندی گالیاں دیتا ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے. میں اسے مارنے کے لیے جا رہا تھا مگر ساتھیوں نے مجھے روک لیا . اس نجس مشرک کے ساتھ ایک ٹولا تھا . وہ سبھی بندوقیں تھامے ہوئے تھے . میں نے ان مقامی ساتھیوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کے یہ ایم ایل اے "بورا " کومینیٹی کا لیڈر ہے ، جو کہ مسلمانوں کی سخت دشمن ہے. اس کے گھر سے خطرناک قسم کے ہتھیار بھی ملے اور اس پر کئی برسوں سے کیس بھی چل رہے ہیں - اور حالیہ آسام مسلم کش فسادات میں اسنے اور اسکے ساتھیوں نے بہت ظلم کیا ہے . ساتھیوں کے اصرار پر اور اب اندھیرا پھیلنے کی وجہ سے ہم وہاں سے واپس ہو گئے .