مجھے ان خاص ہاتھوں کا سہارا اب نھیں ملتا


مجھے ان خاص ہاتھوں کا سہارا اب نھیں ملتا
چلو پھر ڈوب جانے دو کنارہ اب نھیں ملتا

وہ جو قطرہ قطرہ بکھر گيا کوئ ٹکڑا تم بھی سنبھال لو
یہی سمجھو غنیمت ہے وہ شخص سارا اب نھیں ملتا

اس اندھیر نگری میں راجے سب ہی چوپٹ ہیں
تبھی تو آسماں پر کوئ ستارا اب نھیں ملتا

یہاں جسموں کی نیلامی اور دولت سے محبت بس
کسی بے چارے کو تبھی تو چارہ اب نھیں ملتا

یہاں تو اب فقط لٹتے مسافر کی آہیں ہیں
میری بے تاب آنکھوں کو حسیں کوئ نظارہ اب نھیں ملتا

اس مہ جبیں نے میرے گلشن کو یوں برباد کر ڈالا
کجا ہیں پھول عثماں جی پانی کا فوارہ اب نھیں ملتا