کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی شب پوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تیرا

اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص ہے دیوانہ تیرا

کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

ہم اور رسمِ بندگی ، آشفتگی ، اوفتگی
احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسن بے پروا تیرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکے ٹک گیے
الطاف کی بارش تیری ، اکرام کا ردیا تیرا

اے بے دریغ و بے ایماں! ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
ہم کو تیری وحشت سہی ، ہم کو سہی سوادا تیرا

ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر
رستہ کبھی روکا تیرا؟ دامن کبھی تھاما تیرا؟

ہاں ہاں تیری صورت حسیں! لیکن تو ایسا بھی نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کیا کیا تیرا

بے درد سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
عاشق تیرا ، رسوا تیرا ، شاعر تیرا ، انشاء تیرا

ابن انشاء