رمضان الکریم
رمضان کا مبارک مہینہ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک انتہائی عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عطا فرمائی۔اس ماہ میں ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی نعمت عطا کی گئی۔اس ماہ میں ہمیں قرآن مجید دیا گیا گیا جو ہدایت ہے ، فرقان ہے ، رحمت ہے ، نور ہے ، شفا ہے۔اس ماہ میں بدر کا وہ یوم الفرقان امت کو نصیب ہوا ، جس دن اس کے لیے اور انسانیت کے لیے زندگی مقدر کر دی گئی ، جن کو ہلاک ہونا تھا وہ روشن دلیل کے ساتھ ہلاک ہوئے اور جن کو زندہ رہنا تھا وہ روشن دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔اسی ماہ میں وہ دن بھی ہے جو یوم الفتح کے نام سے جانا گیا۔
امت کی زندگی اور سربلندی کا راز دعوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جہاد میں پوشیدہ ہے۔کہیں انسانوں کا دل جیتنے کے لیے جدوجہد تو کہیں اسلام دشمنوں کے لیے تلوار بے نیام سے قتال ۔۔۔۔۔اور اس جہاد کے ساتھ ساتھ کامیابی کے لیے اپنے نفس سے جہاد ، تاکہ تقویٰ حاصل ہو۔ انفرادی تقویٰ بھی ، اور اجتماعی تقویٰ بھی۔خلوتوں میں نالئہ نیم شبی ، آہِ سحر گاہی اور اشکوں سے وضو بھی ، اور جلوتوں میں ، پبلک لائف میں ، صداقت ، دیانت ، امانت، عدالت ، شجاعت ، اخوت اور حقوق انسانی کا احترام بھی۔
رمضان علم و عمل کا وہ راستہ ہے جس کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔
رمضان کا مبارک مہینہ بس چند روز میں ہمارے اوپر سایہ فگن ہونے کو ہے ، اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لیے برسے گی۔اس مہینے کی عظمت و برکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی کریم صلی اللہ و علیہ وسلم نے "شھر عظیم اور شھر مبارک" کہا ہو! نہ ہم اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کا تصور کر سکتے ہیں ، نہ ہماری زبان اس کی ساری برکتیں بیان کر سکتی ہے۔
بشارت دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جو رمضان المبارک میں روزے رکھے اس کے سارے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ، اور اس شخص کو جو راتوں میں نماز کے لیے کھڑا رہے کہ اس کے بھی اگلے پچھلے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور وہ جو شب قدر میں قیام کرے ، اس کے بھی۔بس شرط یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی باتوں اور وعدوں کو سچا جانے ، اپنے عہد بندگی کو وفاداری بشرط استواری کے ساتھ نباھے ، اور خود آگہی و خود احتسابی سے غافل نہ ہو۔(بخاری : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
اس مہینہ کی برکت اور عظمت بلاشبہ عظیم ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں اس میں برسنے والی رحمتیں اور برکتیں ہر اس فرد کے حصہ میں آ جائیں گی جو اس کو پا لے گا۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ بارش کا برسنا ، بارش برستی ہے تو پوری زمین پر برابر پڑتی ہے ، مختلف ندی نالے اور تالاب اس سے اپنی وسعت کے مطابق فیض اٹھاتے ہیں۔زمین کے مختلف ٹکڑے بھی اپنی استعداد کے مطابق ہی فصل دیتے ہیں۔بارش تو سب پر یکساں ہی برستی ہیں لیکن جتبا پانی ایک چھوٹے سے گڑھے کے حصے میں آتا ہے اس سے کہیں زیادہ پانی سے ایک تالاب بھر جاتا ہے۔بارش تو چٹانوں پر بھی ایسی ہی برستی ہے جیسی کہ نرم زمینوں پر مگر چٹانوں سے پانی بہہ جاتا اور وہ اس سے کچھ نفع حاصل نہیں کر پاتیں ، جبکہ وہی بارش جب کہیں کسی اور زمین پر برستی ہے تو وہ زمین اس کے لیے اپنا سینہ چاک کر دیتی ہے اور لہلانے لگتی ہے۔یہی حال انسانوں کی فطرت اور ان کے نصیب کا بھی ہے۔
رمضان کریم سے ہمیں کیا ملے گا؟اگر آپ کے دل زمین کی طرح نرم اور آنکھیں نم ہوں گی ، آپ ایمان کا بیج اپنے اندر ڈالیں گے اور اپنی صلاحیت و استعداد کی حفاظت کریں گے ، توبیج پودا بنے گا اور پودا درخت۔درخت اعمال صالحہ کے پھل پھول اور پتیوں سے لہلہا اٹھیں گے ۔کسان کی طرح ، آپ محنت اور عمل کریں گے تو آپ کی جنت کی کھیتی تیار ہو گی ، جتنی محنت ہو گی اتنی ہی اچھی فصل تیار ہو گی۔دل پتھر کی طرح سخت ہوں گے اور آپ غافل سوتے پڑے رہ جائیں گے تو روزوں ، تراویح اور رحمت و برکت کا سارا پانی بہہ جائے گا اور آپ کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے گا۔
توفیق الہیٰ کے بغیر یقیناً کچھ ممکن نہیں لیکن یہ توفیق بھی تب ہی ملتی ہے جب آپ اس کے لیے کچھ کوشش اور محنت دکھائیں۔اللہ کریم تو کہتے ہیں تم میری طرف ایک بالشت آو میں تمہاری جانب دس قدم آؤں گا۔تم میری طرف چلنا شروع کرو میں تمہاری طرف بھاگتا ہوا آؤں گا(مسلم:ابوذر رضی اللہ عنہ)۔لیکن آپ کھڑے رہیں، پیٹھ پھیر کر ، غافل اور لاپروا ، تو بتائیں کہ توفیق الہیٰ آپ کے پاس کیسے آئے؟؟؟
کہیں ایسا نہ ہو رحمتیں برستی رہیں ، برکتیں لنڈھائی جاتی رہیں اور آپ اتنے بدنصیب ہوں کہ آپ کی جھولی خالی رہ جائے۔کچھ کرنے اور رحمتیں لوٹنے کے لیے کمر کس لی جیئے مگر اس سے ذرا پہلے اس تنبیہ کو ذھن نشین کر لیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کتنے روزہ دار ہیں جن کو روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے رتجگے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔(الدارمی:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)
سارا انحصار آپ پر ہے!
نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے پہلے اپنے رفقاء کو مخاطب کر کے رمضان کی برکت و عظمت سے آگاہ کرتے اور اس سے رحمتیں حاصل کرنے کی کوشش اور تلقین بھی فرماتے۔آج سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں میرا مقصد بھی یہی ہے کہ رمضان کی تیاری کے حوالے سے گفتگو کی جائے۔
رمضان کا مہینہ اس لیے مبارک نہیں ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں تلاوت قرآن کی جاتی ہےبلکہ بات یوں ہے کہ اس ماہ کا انتخاب کیا گیا روزوں اور تلاوت قرآن کے لیے کیونکہ یہی وہ ماہ ہے جس میں نزول قرآن کا عظیم الشان اور منفرد و بے مثال واقعہ پیش آیا۔یہ جلیل القدر واقعہ اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس کے دنوں کو روزوں کے لیے اور راتوں کو قیام و تلاوت کے لیے مخصوص کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ خود اس بات کو یوں آشکارا فرماتے ہیں:
رمضان ہی وہ مہینہ ہےجس میں قرآن نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لیے سرتاسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔لہذا جو شخص اس مہینے کو پائے لازم ہے کہ وہ اس میں روزے رکھے۔(البقرہ:185)

آپ کیا کریں؟؟
پہلی چیز صحیح نیت اور پکا ارادہ ہے۔
نیت شعور و احساس پیدا کرتی ہے اور اس کو متحرک کرتی ہے ۔ شعور بیدار ہو تو ارادہ پیدا ہوتا ہے اور ارادہ ، محنت اور کوشش کی صورت میں ظہور کرتا ہے۔
رمضان کے استقبال کے لیےآپ کو چاہیئے کہ رمضان کے مقام ، اس کے پیغام ، اس کے مقصد اور اس کی عظمت و برکت کے احساس کو دوبارہ تازہ کریں۔اس بات کی نیت کریں کہ اس مہینے میں آپ جن معمولات اور عبادات کا اہتمام کریں گے ان سے آپ اپنے اندر وہ تقوی ٰپیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزے کا حاصل ہے اور جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے دین کے تقاضوں اور قرآن مجید کے مشن کو پورا کرنے کے قابل بنا سکے۔
ایک مشورہ ہے کہ آپ رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے آخری دن میں یا آغاز ہونے کے فوراً بعد پہلی ہی رات میں ، دو گھڑیاں تنہا بیٹھ جائیں ۔اللہ تعالیٰ کے حضور خود کو حاضر جانیں ۔اللہ کی حمد بیان کریں ، رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں ، اپنے گناہوں کا استغفار کریں۔اس کے بعد آنے والے مہینے کے لیے اک لائحہ عمل طے کی جیئے۔اک خاکہ سے کھینچ لیں ذھن میں کہ آپ کیسے اس ماہ کو گزاریں گے۔کن عبادات کو کن اوقات میں ادا کریں گے۔ان تمام باتوں کو پھر سے سوچیں جو آپ رمضان کی عظمت کے بارے جانتے ہیں۔اس کے بعد پورے ماہ کے لیے کوشش اور محنت کی نیت باندھیں اور اللہ کریم سے توفیق طلب کریں اور دعا کریں کہ اللہ رب رحیم آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنی راہ پر چلائے۔
دوسری چیز: قرآن مجید کی تلاوت و سماعت اور علم و فہم کے حصول کا اہتمام ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی مخصوص عبادات یعنی روزے اور قیام الیل کو قرآن مجید پر مرکوز رکھتا ہے۔اس مہینے کا اصل حاصل ہی قرآن سننا اور پڑھنا ، قرآن سیکھنا اور اس پر عمل کی استعداد پیدا کرنا ہے۔اس لیے آپ کو سب سے زیادہ اہتمام جس چیز کا کرنا ہو گا وہ ہے قرآن مجید سے تعلق۔
نماز تراویح کی پابندی سے اتنا تو ضرور حاصل ہوتا ہے کہ پورے کا پورا قرآن آپ ایک دفعہ سن لیتے ہیں۔عربی نہیں جانتے اس لیے اس بات کا اہتمام کریں کہ رات جو پڑھا جائے اس کا ترجمہ گھر میں ضرور دیکھیں اور اس کو خود میں جذب کرنے کی کوشش کریں۔اس کے ساتھ اپنی روح اور دل کے تعلق کو گہرا کریں اور پروان چڑھائیں۔
قرآن اپنے سننے اور پڑھنے والوں کے متعلق کہتا ہے کہ جب اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو سننے والے اور پڑھنے والوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور نرم ہو جاتے ہیں۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں ، ان پر گریہ طاری ہو جاتا ہے۔ان کا ایمان بڑھتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا ہے کہ جب قرآن پڑھو تو رو اگر رو نہ سکو تو رونے کی کوشش کرو ، اس لیے کہ قرآن حزن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔
آج شب ہی اک تجربہ کر دیکھیں قرآن کی چھوٹی سورہ القارعہ کو ترجمہ کے ساتھ دل میں اتارنے کی کوشش کریں۔اس کے معانی و مفاہیم پر نظر کریں اور دیکھیں آپ کے دل کا کیا حال ہوتا ہے۔مگر شرط صرف یہی ہے کہ اس میں ڈوب کر پڑھیں۔جب تلاوت کریں دل اور دماغ بھی زبان کے ساتھ ہوں۔

تیسری چیز :اللہ کی نافرمانی اور معصیت سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا۔
روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے اور رمضان المبارک کا مہینہ تقویٰ کی افزائش کا موسم بہار ہے۔اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کو خصوصی کوشش کرنی چاہیئے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ عام دنوں میں کوشش نہ کی جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ رمضان میں قرآن مجید سے خصوصی تعلق ، صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں دن بھر بھوکا پیاسا رہنے اور اس کے بعد راتوں کو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے اور اس کا کلام سننے سے ایک خاص ماحول بنتا ہے اور ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔اس ماحول اور کیفیت میں یہ جذبہ زیادہ گہرا اور قوی ہو سکتا ہے کہ آپ ہر اس چیز سے بچیں جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو۔
اچھی طرح جان لی جیئے کہ روزہ صرف پیٹ کا روزہ نہیں ہے۔آنکھ کا بھی روزہ ہے ، کان کا بھی روزہ ہے ، زبان کا بھی روزہ ہے ، ہاتھ پاؤں کا بھی روزہ ہے۔وہ روزہ یہ ہے: آنکھ وہ نہ دیکھے ، کان وہ نہ سنے ، زبان وہ نہ بولے ، ہاتھ پاؤں وہ کام نہ کریں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور جن سے منع کیا گیا ہے۔
اپنی خرابیوں کو ایک ایک کر کے دور کرنے کی کوشش کی جیئے اس رمضان میں عہد باندھئیے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں گے ، فضول گوئی سے پرہیز ، غیبت سے دوری اور چلا کر بات کرنے سے بچیں گے۔

چوتھی چیز: ہر طرح کی نیکیوں کی خصوصی جستجو کریں
ہر لمحے ، ہر قسم کی نیکی کی طلب اور جستجو تو مومن کی فطرت کا جز ہونا چاہیئے ، لیکن رمضان کے مہینے میں اس معاملے میں بھی خصوصی توجہ اور کوشش ضروری ہے۔اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آپ جس نیکی سے بھی اللہ کا قرب تلاش کریں گے اس کا ثواب فرض کے برابر ہو جاتا ہے (بیھقی : سلمان فارسی رضی اللہ عنہ) اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے؟
یہ جستجو مراسم عبادت کے دائرے میں میں بھی کریں ، مثلاتکبیر تحریمہ کا التزام ، نفل نمازوں کا اہتمام۔یہ جستجو انسانی تعلقات کے دائرے میں بھی کریں۔اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے ، اس کو ایذا نہ پہنچانا بھی صدقہ ہے،اس کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔اس رمضان میں آپ چند ایک نیکیوں کو مخصوص کر لیں کہ ان پر آپ خصوصی توجہ دیں گے جیسے ہر کسی کو سلام کرنا ، مسکرا کر ملنا ، نرم لفظوں میں بات کرنا وغیرہ۔
پانچویں چیز :قیام الیل ہے۔
رات کا قیام اور تلاوت قرآن اپنا احتساب اور استغفار ، تقویٰ کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے اورانتہائی کارگر نسخہ ہے۔یہ متقین کی صفت اور علامت ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ متقین وہ ہیں جو رات کو کم سوتے ہیں اور سحر کے وقت استغفار کرتے ہیں۔(الذاریات)

چھٹی چیز:ذکر اور دعا کا اہتمام ہے۔
ذکر اور دعا کا اہتمام پوری زندگی میں ہر وقت ضروری ہے۔ذکر کیا ہے؟ ذکر ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے ذکر ہے ، خواہ دل سے ہو ، زبان سے ہو یا اعضا و جوارح سے۔روزہ بھی ان معنوں میں ذکر ہےبھوک پیاس بھی ذکر ہے ، اور تلاوت قرآن ، خصوصا نماز میں تو ہے ہی ذکر کی بڑی اعلیٰ و ارفع صورت۔لیکن رمضان المبارک میں زبان سے ذکر ،یعنی کلمات ذکر کا ورد اور دعا کا اہتمام بہت ضروری اور نافع ہے۔
ذکر کی ایک صورت دعا ہے ۔ دعا کی بنیاد یہ ایمان ہے کہ سب کچھ اللہ سے ہی مل سکتا ہے اور سارے اختیارات اور خزانوں کا وہی مالک ہے۔دعا سراپا محتاج اور فقیر ہونے کا اقرار ہے۔رمضان میں عام اوقات کے علاوہ مخصوص اوقات بھی ہیں دعا کی قبولیت کے۔
اس ضمن میں کوشش کریں کہ پہلے عشرے میں رحمت کی طلب کثرت سے کریں۔دوسرے عشرے میں مغفرت کی اور تیسرے عشرےمیں نار جہنم سے رہائی کی۔نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عشروں کی یہ برکات بیان فرمائی ہیں۔(بیھقی: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ) مختلف اوقات اور حالات کی دعاؤں اور جامع مسنون دعاؤں میں سے بھی ہر رمضان میں چند دعائیں یاد کر لیا کریں۔
ساتویں چیز: شب قدر اور اعتکاف کا اہتمام کرنا۔
شب قدر وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔یہ رات اپنی قدر و قیمت کے لحاظ سے ، اس کام کے لحاظ سے جو اس رات میں انجام پایا ، ان خزانوں کے لحاظ سے جو اس رات میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں سے بہتر ہے۔جو اس رات قیام کرے اس کو سارے گناہوں کی مغفرت کی بشارت سی گئی ہے۔
یہ رات کون سی رات ہے؟ یہ ہمیں یقینی طور پر نہیں بتایا گیا۔احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے ، یعنی اکیسیویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا انتیسویں۔بعض احادیث میں کہا گیا ہے کہ یہ آخری عشرے کی کوئی ایک رات یا رمضان المبارک کی کوئی بھی رات ہے۔
اس کو پوشیدہ رکھنے کا راز یہ ہے کہ آپ اس کی جستجو اور تلاش میں سرگرداں رہیں، محنت کریں، اپنی آتش شوق کو جلتا رکھیں۔آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اسے تلاش کریں۔اس سے زیادہ ہمت ہو تو اس پورے عشرے کی ہر رات میں اور اگر اس سے بھی زیادہ ہمت رکھتے ہیں تو رمضان کی ہر رات میں تلاش کریں۔جو چیز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے وہ یہ کہ بندہ اس کو خوش کرنے کے لیے اور اس کی رحمت اور انعامات کی طلب میں ہر وقت ہمہ تن جستجو بنا رہے، مسلسل کوشش میں لگا رہے۔کام سے زیادہ ، ارادہ اور مسلسل کوشش ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
اگر ہمت و حوصلہ ہو تو پھر آپ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کریں۔دس دن ممکن نہ ہو تو کم مدت کا ہی سہی لیکن کوشش ضرور کریں اعتکاف کی۔اعتکاف ، قلب و روح ، مزاج انداز اور فکر و عمل کو للّٰہیت کے رنگ میں رنگنے اور ربانیت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔اس طرح شب قدر کی جستجو کا کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔اعتکاف ہر کسی کے لیے تو ممکن نہیں لیکن اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ اس کو فرض کفایا کہا گیا ہے،نبی کریمً نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہےاور اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے ، راتوں کو جاگتے ، اپنے گھر والوں کو جگاتے اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے۔(بخاری و مسلم)

آٹھویں چیز:انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کریم کی راہ میں فیاضی سے خرچ کرنا۔
نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ ہے۔جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے وہ سب خرچ کرنا۔وقت بھی اور جان و مال بھی۔لیکن رمضان میں سب سے بڑھ کر مال خرچنا ہےاس لیے کہ مال دنیا کی محبوب شے ہے اور یہی دین اور آپ کے درمیان اکثر آڑے آتا ہے۔
نبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انسانوں سے زیادہ فیاض اور سخی تھے۔لیکن جب رمضان المبارک آتا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات جبرائیلؐ سے ہوتی تو پھر آپ کی سخاوت اور داد و دہش کی کوئی انتہا نہ رہتی ، آپً اپنی فیاضی میں بارش لانے والی ہوا کی مانند ہو جایا کرتے تھے(بخاری و مسلم :ابن عباس رضی اللہ عنہ)۔قیدیو کو رہا کرتے اور مانگنے والے کو کچھ نہ کچھ عطا کرتے۔