اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

اہل کتاب (یہود و نصارٰی) کے اختلافات کے اسباب و وجوہ پر قرآن مجید کی بیشمار آیتیں شاہد ہیں جن اسباب سے اہل کتاب میں اختلاف پھوٹنے وہ اسباب امت مُسملہ میں بھی مدت دراز سے وجود پذیر ہو چکے ہیں اور اختلافات باہمی کا جو نتیجہ یہود و نصارٰی کے حق میں نکلا تھا مسلمان بھی صدیوں سے اس کا خمیازہ اُٹھا رہے ہیں۔ کتاب الہٰی کو پس پشت ڈالنے اور انبیاء کی سنت و طریقے کو فراموش کردینے اور اس کی جگہ کم علم اور دنیا ساز علماء اور گمراہ مشائخ کی پیروی اختیار کرنے کا جو وطیرہ اہل کتاب نے اختیار کر رکھا تھا مسلمان بھی عرصہ دراز سے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں واضع مسائل اور اختراع بدعتا سے دین کو تبدیل کرنے کا جو فتنہ یہود و نصارٰی نے برپا کیا تھا بدقسمتی سے مسلمان بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دین حنیف کا حلیہ بگاڑ چکے ہیں۔۔۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ اُمتوں کی مثال دے کر اپنی اُمت کو باہمی اختلاف سے ڈرایا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔۔۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہوگئے۔(مشکوٰۃ باب الاعتصام صفحہ ٢٠)۔۔۔

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو دین میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ہے۔۔۔

اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے!۔
اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے اور احکام بین آنے کے بعد ایک دوسرے سے (خلاف و) اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جن کی قیامت کے دن بڑا عذاب ہے۔(ال عمران۔١٠٥)۔


یہ آیت دین میں باہمی اختلافات اور گروہ بندی کی ممنانعت میں بالکل واضع اور صریح ہے۔ اللہ تعالٰی نے گذشتہ اُمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو ان کی روش پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ (تفسیر خازن) میں اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کیا گیا ہے۔۔۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومنوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے اور ان کو خبر دی گئی ہے کہ پہلی اُمتین صرف آپس کے جھگڑوں اور مذہبی عداوتوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، بعض نے کہا ان سے اس اُمت کے بدعتی لوگ مراد ہیں اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ حروری خارجی ہیں۔(تفسیر خازن، علامہ علاء الدین ابو الحسن بن ابراہیم بغدادی جلد ١ صفحہ ٢٦٨)۔۔۔

بعض لوگ (اختلاف اُمتی رحمۃ) کی روایت کو صحیح قرار دے کر اُمت مسلمہ کے ہر اختلاف کو بے پرواہی سے دیکھتے ہیں حالانکہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ثابت امام سخاوی رحمہ اللہ نے (المقاصد الحسنہ) میں اور ملا علی قاری حنفی نے (موضاعات کبیر) میں اس روایت کا بے اصل ہونا ثابت کیا ہے (مجمع البحار) کے خاتمہ پر شیخ محمد طاہر پٹنی گجراتی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے موضوع ہونے پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے اس لئے اختلاف اُمت کو رحمت سمجھنے والوں کو اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔۔۔

اُمت مسلمہ میں اختلاف اور باہمی نزاع پیدا ہونے اور مختلف فرقے بن جانے کی پیشنگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ فرمائی تھی بہت سی صحیح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشنگوئیوں کا تذکرہ ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے ارشاد فرمایا تم پہلی اُمتوں کی پیروی میں ایسے برابر ہو جاؤ گے جیسے تیر سے تیر، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی گھسو گے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا یہود و نصارٰی کی پیروی مسلمان کریں گے؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اور کون ہوسکتا ہے؟؟؟ (بخاری ومسلم)۔۔۔

صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ!۔
اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیت دیا کہ مشرق و مغرب تک بہ یک وقت دیکھ دہا تھا اور میری اُمت کی حدود مملکت وہاں تک پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھایا گیا ہے اور مجھے دو خزانے عطاء فرمائے گئے ہیں ایک سرخ اور دوسرا سفید۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی سے اپنی اُمت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحظ سالی میں صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جائے اور یہ کہ میری اُمت پر مسلمان کے علاموہ کوئی خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمان کے بلادو اسباب کو مُباح سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اے محمد! جب میں کسی بات کا فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا میں نے آپ کی اُمت کے بارے میں آپ کو یہ وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں تباہ نہیں کیا جائے گا اور دوسرے یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا جو ان کے مملو کہ مال واسباب کو مُباح سمجھ لے اگرچہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے جمع کیوں نہ ہوجائیں ہاں! مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں گے۔۔۔

حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں۔۔۔
میں اپنی اُمت کے بارے میں ان کے گمراہ کن پیشواؤن سے ڈرتا ہوں اور جب میری اُمت میں آپس میں تلوار چل پڑے گی تو قیامت تک نہ رُک سکے گی اور اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک میری اُمت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ مل جائے اور یہ کہ میری اُمت کے بہت سے لوگ بُت پرستی نہ کرلیں اور میری اُمت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعوٰی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور میری اُمت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور فتح یاب ہوگا جن کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا حکم آجائے گا۔۔۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔
جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا، وہی قدم بہ قدم میری اُمت پر آنے والا ہے کہ اگر اُن میں سے ایک شخص ایسا ہوا ہے جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہوگا تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور میری اُمت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہو جائے گی ان میں سے بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ ناجی یعنی جنتی ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟؟؟۔۔۔ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلتا ہوگا۔(ترمذی)۔۔۔


اس حدیث مبارک میں اُمت کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشنگوئی تھی وہ محض بطور تنبیہہ و نصیحت تھی۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے ڈھال بنا لیا ہے اور (ما انا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہر گروہ اپنے آپ کو (ناجی فرقہ) کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر و ضال و مضل اور بہتر (٧٢) باری فرقوں میں شمار کرتا ہے۔۔۔

حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالٰی پر اس کے ملائکہ پر اس کے رسولوں پر قیامت کے دن پر اچھی یا برُی تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر حج کرتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک یہ سب مومن ہیں۔ بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔۔۔

اور قرآن مجید میں انہیں ایسی جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمشہ ان میں رہیں گے۔۔۔

ارشاد باری تعالٰی ہے!۔
جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو اللہ بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل فرمائے گا۔۔۔

یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں، جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفارہ مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر دو فریقوں میں ایک یقینی طور پر غلطی پر ہوگا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاج و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی (انانیت) اور کبرہ غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو ریا ہے تو اس کا شمار (سئیات) میں ہوگا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضع کریں اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہوگئے مسلمانوں کی سئیات یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔