مکہ کےانہدام کا ناپاک منصوبہ


یہ مضمون یہاں سے لیا گیا ہے جبکہ اصل مضمون انگلش میں ہے جس کا لنک یہ ہے جو کہ ابھی کام کررہا ہے۔




تاریخی شہر مکہ اورحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش کےانہدام کا ناپاک منصوبہ

(ایک مخصوص گروہ کا سازشی منصوبہ جسےلندن کےانگریزی اخبار ڈیلی انڈیپینڈینٹ نےبےنقاب کیا)


مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو اسلامی تاریخ میں ایک اہم حیثیت حاصل ہےجب اسلام کی تاریخ رقم کی جائےگی تو کوئی بھی مؤرخ ان دوشہروں کےتذکرےکےبغیر اپنا مضمون مکمل نہیں کریگا۔ مکہ معظمہ جہاں کعبۃ اللہ (اللہ کا گھر ) ہےجبکہ مدینہ منورہ جہاں سرکاردوعالم حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک ہےاس لحاظ سےان دو شہروں کی نسبت لازم و ملزوم کی سی ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تاریخ اس قدر پرانی ہےجتنی کہ اسلام اور مسلمانوں کی۔ کعبۃ اللہ کی اولین تعمیر کا شرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا بعد ازاں مختلف ادوار میں اسکی تعمیر نو ہوتی رہی اور آج کعبۃ اللہ کا منظر اور جغرافیائی نقشہ یکساں طورپر مختلف ہو چکا ہے۔ اس طرح مدینہ منورہ، مسجد نبوی اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےروضہ مبارک کی تعمیر نو سےاولین مسجد نبوی کا منظر بدل چکا ہےیہی نہیں بلکہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کےگردونواح کا منظر بھی یکساں تبدیل ہو چکا ہے۔ مکہ و مدینہ کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اضافےکےباعث ان دو شہروں میں نئی عمارتوں کےپہاڑ کھڑےنظر آتےہیں۔بالخصوص گزشتہ 2 دہائیوں سےان دونوں شہروں میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ امریکی ادارے”واشنگٹن گلف انسٹی ٹیوٹ “ کی طرف سےجاری کردہ ایک رپورٹ کےمطابق1980 سےلیکر ابتک مکہ معظمہ کی 95% پرانی عمارتیں منہدم، تبدیل یا پھر ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔




ان دونوں شہروں کےاردگرد عمارتوں کی تعمیر، حجاج کی رہائش گاہوں کیلئےبلندوبالا بلڈنگز کی تعمیر کا منصوبہ تیزی سےپھیل رہا ہےجس نےان شہروں کی تاریخی حیثیت اور تشخص کو قدرےدھندلا دیا ہے۔ رفتہ رفتہ مکہ اور مدینہ منورہ کا انفرادی تشخص ختم کرنیکی کوشش ایک سازش کےتحت جاری ہےجسےایک مخصوص طبقہ فکر کر رہا ہےمخصوص مسلک کےلوگ جو بظاہر سعودی عرب حکومت کا بھی اہم جزو ہیں ان تاریخی عمارتوں کی تعمیر نو کا ناپاک منصوبہ رکھتےہیں۔ اس حوالےسےگزشتہ دنوں 6 اگست کولندن سےشائع ہونیوالےانگریزی اخبار ڈیلی انڈیپینڈنٹ کےصفحہ اول پر چشم کشا حقائق شائع ہوئےہیں جن کےمطابق ” مکہ معظمہ کےاردگرد توسیع منصوبوں پر عمل شروع کرنےکےبعداب یہ مخصوص گروہ اور مسلکی طبقہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل جائےپیدائش کو بھی (معاذ اللہ ) ختم کرنا چاہتا ہےاور آج حضور علیہ السلام کی جنم بھومی کو انہدام کا سامنا ہے۔ اخبار کےمطابق نجانےکیوں سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور اپنےتاریخی ورثہ کو ضائع کرنےپر تلی ہوئی ہے، یہ بالکل اس طرح ہی ہےجیسے 2000ءمیں افغانستان میں طالبان کےشہر بامیان کو تباہ و برباد کر دیا گیا جسکی بعد ازاں (اوپیک) تیل پیدا کرنیوالےممالک کی خصوصی گرانٹ سےتعمیر نو کی گئی۔ ڈیلی انڈیپینڈنٹ کی اس Top Story کےمطابق یہ مخصوص گروہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کےانہدام کا خطرناک وناپاک منصوبہ بھی بنا چکا ہےجسےوہ باقاعدہ حکمت عملی اور منصوبہ بندی سےکام کررہا ہے۔




سعودی عرب میں اسلامی تعمیرات اور عمارتوں کا وسیع تجربہ رکھنےوالےماہر تعمیرات ڈاکٹر سمیع انگوی ہیں جنہوں نےاپنی زندگی کا طویل حصہ ان دونوں تاریخی شہروں (مکہ و مدینہ ) میں گزارا ہےکا کہنا ہےکہ آج بدقسمتی سےحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانےکا صرف 20 فیصد انفراسٹرکچر باقی ہےاور 14 سو سال پہلےقائم شدہ اسلامی تاریخ کا اثاثہ جات ختم ہو کر رہےگئےہیں۔ اب جو حصہ اور آثار قدیمہ باقی بچےہیں وہ اسلام کا ایک بہت بڑا اثاثہ وسرمایہ ہیں لیکن ایک خاص طبقہ فکر کےلوگ نہیں کسی بھی وقت ختم یا منہدم کر سکتےہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر تاریخی شہر مکہ اور مدینہ کی تاریخ یہاں ختم ہو جائےگی جبکہ پھر اس تاریخی شہرکا کوئی مستقبل بھی باقی نہیں رہےگا۔گینز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کےمطابق مکہ و معظمہ عالم اسلام اور دنیا کی سب سےبڑی دیکھی جانیوالی جگہ (Visit Place ) ہےجہاں اسکےساتھ مدینہ منورہ اور تاریخی حیثیت کی حامل ” مسجد نبوی“ بھی ہےجبکہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ مبارک سمیت یہ وہ جگہیں ہیں جہاں سالانہ 4ملین سےزائد لوگ زیارت کیلئےآتےہیں۔





ڈیلی انڈیپنڈنٹ سےاس مخصوص طبقہ کو ڈائریکٹ”WHABISM“ کی اصطلاح سےموسوم کیا ہے۔ اخبار کےمطابق اس تاریخی شہر کو ختم کرنےمیں اس طبقہ کا اہم کردار ہے۔ ان لوگوں نےعرصہ دراز سےخفیہ مہم اور پلان کےذریعےاسکےانہدام کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ بدقسمتی سےیہ منصوبہ آج اور بھی کامیاب دکھائی دیتا ہےکہ جب ان لوگوں کی سعودی عرب میں نہ صرف اکثریت بلکہ عنان حکومت بھی ان کےہاتھ ہےتاریخی اعتبار سےاس مخصوص فرقہ کےلوگوں نےنسلاً 1920 میں السعود کی زیر قیادت یہاں نموپائی اور اس کےبعد مختلف ادوار میں یہ یہاں اپنی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث رہےہیں۔اس مخصوص فرقہ نےکعبۃ اللہ اور مدینہ منورہ کی تعمیر نو اور اب حضور علیہ اسلام کی جائےپیدائش کا بھیانک گمراہ کن اور ناپاک منصوبہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کےتحت تیار کیا ہےجسکی ایک مثال یہ ہےکہ آج تک ان لوگوں نےمذہبی ہتھیار کو استعمال کرتےہوئےتاریحی شہر مکہ کو بت پرستی سےپاک کرنیکا نعرہ لگایا ہے۔ بت پرستی اور بتوں کی پوجا کرنا کسی بھی مسلمان کا شیوہ نہیں تو پھر سمجھ نہیں آتا کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کےنزدیک بت پرستی کر رہےہیں حالانکہ کعبۃ اللہ تو اسی دن ہی بتوں سےپاک ہو گیا تھا جس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاس گھر کےاندر تمام بتوں کو کلہاڑےکےساتھ پاش پاش کر دیا اور بعدازاں حضور علیہ السلام نےخود ان بتوں کو پاش پاش کرکےسب سےبڑےسردار کےکندھےپر کلہاڑا رکھ کر معاملہ ختم کر دیا تھا لیکن اس مخصوص طبقہ کےنزدیک شاید آج بھی بت پرستی جاری ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ مکہ میں مسلمان بستےہیں یا پھر کفار؟ کیونکہ اسلام میں ایک خدا کی عبادت کا حکم ہےنہ کہ بتوں کی پوجا کا جبکہ مشہور برطانوی مصنف جان رائٹ بریڈی اپنی نئی کتاب ” سعودی عریبیہ ایکسپوزر“ میں لکھتےہیں کہ بتوں کی پوجا آج صرف کفار کےہاں بچی ہےجو آج بھی اس اصول کےکاربند ہیں لیکن آج سعودی عرب میں ایک شدت پسند گروہ اور مذہبی رجحت پسندوں کی حکومت ہےجو اپنےمخصوص مقاصد کی بھر پور تشہیر کر کےکعبۃ اللہ کو بتوں سےپاک کرنےکا نعرہ لگا رہےہیں اور اس کیلئےوہ تشہیر بھی کر رہےہیں اخبار لکھتا ہےکہ ” آج بھی جدہ شہر کی دیواریں اور چوراہےایسےپوسٹرز اور اشتہاروں سےبھرےہوئےہیں جن میں وہ اپنےمذہبی عقائد کی تشہیر کر رہےہیں۔



ڈاکٹر انگوی کےمطابق اس طرح کےمتنازعہ عقائد اور مسائل کی جڑ ”وہابی از م “ ہےجو بتوںکی پوجا کا بہت بڑا تصور رکھتےہیں۔ یہاں کےسرکاری مطوعّوںکےمطابق جنت البقیع میں قبروں کی پرستش بتوں کی طرح کی جاتی ہے۔جنت البقیع میں روزانہ عصر کی نماز کےبعد اجتماع منعقد ہوتا ہےجس میں یہ سرکاری تنخواہ دار مطوعّےایسےعقائد کا پرچار و اظہار کرتےہیں جبکہ انکا تصوربت پرستی اس حد تک الجھاؤ کا شکار ہو گیا ہےکہ مدینہ پاک میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےروضہ مبارک کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا بھی نہیں کی جا سکتی۔ان کےنزدیک یہ شرک ہے(نعوذ باللہ ) جنت البقیع میں واقع وسیع و عریض قبرستان کےبارےان لوگوں کا مؤقف یہ ہےکہ یہاں ہزاروں صحابہ کی قبریں ہیں اور وہ یہ نہیں جانتےکہ کون کون سی قبر کس صحابی کی ہےلہذا اس طرح بغیر علم کےچند صحابہ کےنام قبریں موسوم کرنا غلط ہےبلکہ ان لوگوں کو تمام مزارعات کا علم ہےلیکن یہ جان بوجھ کےنہیں بتاتےاور اگر کوئی دعا مانگنا شروع کر دےتو یہ لوگ اسےبت پرستی قرار دیتےہیں اور اس کو فوری منع کرتےہیں۔



جان بریڈی کا کہنا ہےکہ ” سعودی عرب میں آج کل مذہبی شدت پسند بلکہ مذہبی رجحت پسندوں کی حکومت ہےجو صرف اقتدار کےبل بوتےپر اپنےمقاصد کی بھر پور تشہیر کر رہےہیں جبکہ یہ لوگ ایک سوچی سمجھی سازش کےتحت ایکبار پھر شرک کا معاملہ دوبارہ اٹھا رہےہیں جیسےخدانخواستہ یہاں مشرکوں کی آبادی ہے” نعوذ باللہ“جبکہ ڈاکٹر انگوی کا کہنا ہےکہ یہ گروہ بتوں کی پوجا کا غلط تصور قائم کر کےاسمیں حضورعلیہ اسلام کی ذات کو گھسیڑتےہیں جبکہ آج یہ طبقہ شہر مکہ میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش پر مکمل طور پر قابض ہو چکا ہے۔ڈیلی انڈیپنڈنٹ کےمطابق حضورعلیہ السلام کی جائےپیدائش کےانہدام کا منصوبہ آج سے50 سال قبل 1955ءمیں اسوقت باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا تھا جب کنگ عبدالعزیز نےیہاں ایک لائبریری بنوائی۔ اب انہوں نےایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبےکےتحت اس لائبریری کی توسیع کا فیصلہ کیا ہےتاکہ اسےUpdate کیا جا سکےاور اس کام کی تکمیل کےلئےیہ لوگ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائےپیدائش کو لائبریری میں شامل کرنےکا منصوبہ بنا چکےہیں۔