۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو آپؓ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو! تم نے کہیں رسول اللہ کو دیکھا ہے؟ دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو یا مجھے آپؐ کا پتہ بتا دو۔ پھر آپ اسی غمِ ھجر میں مدینہ کو چھوڑ کر ملکِ شام کے شہر حلب میں تشریف لے گئے۔
ایک سال بعد آپؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ حضور نے آپ سے فرمایا: کہ اے بلال! تو نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ دیا۔ کیا تمھارا دل ہم سے ملنے کو نہیں چاہتا۔ حضرت بلال یہ خواب دیکھ کر لبیک یا سیدی اے آقا غلام حاضر ہے کہتے ہوئے اٹھے اور اسی وقت رات ہی کو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینے چل پڑے۔
رات دن برابر چل کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے حضرت بلال سیدھے پہلے مسجدِ نبوی میں پہنچے اور حضور کو ڈھونڈا مگر حضور کو نہ دیکھا۔ پھر حُجروں میں تلاش کیا۔ جب وہاں نہ ملے تب مزارِ انور پر حاضر ہوئے اور رو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! حلب سے غلام کو یہ فرما کر بلایا کہ ہم سے مل جاؤ اور جب بلال زیارت کے لئے حاضر ہوا تب حضور پردہ میں چھپ گئے۔ یہ کہہ کر آپ بے ہوش ہو کر قبرِ انور کے پاس گر گئے۔
بہت دیر بعد جب آپ کو ہوش آیا تو لوگ قبرِ انور سے اٹھا کر باہر لائے۔ اس عرصہ میں بلالؓ کے آنے کا سارے مدینہ میں غُل ہوا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن بلال آئے ہیں۔ سب نے مل کر بلالؓ سے درخواست کی کہ اللہ کے لئے ایک دفعہ وہ آذان سنا دو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے۔ بلال فرمانے لگے۔ دوستو! یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیونکہ جب حضور کی اس دینوی زندگی میں آزان کہا کرتا تھا تو جس وقت ”اشھد ان محمد رسول اللہ” کہتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے آنکھوں سے دیکھ لیتا تھا۔ اب بتاؤ کہ کیسے دیکھوں گا؟ مجھے اس خدمت سے معاف رکھو! ہر چند لوگوں نے اصرار کیا۔ مگر حضرت بلالؓ نے انکار ہی کیا۔
بعض صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ بلال کسی کا کہنا نہ مانیں گے تم کسی کو بھیج کر حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا لاؤ۔ اگر وہ آن کر بلال سے آذان کی فرمائش کریں گے، تو بلال ضرور مان جائیں گے۔ کیونکہ حضور کے اہلِ بیت سے بلال کو عشق ہے۔ یہ سن کر ایک صاحب جا کر حضرت حسن و حسین کو بلا لائے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آ کر بلالؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے بلال! آج ہمیں بھی وہی آذان سنا دو جو ہمارے نانا جان کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت بلال نے امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گود میں اٹھا کر کہا: ”تم میرے محبوب کے کلیجہ کے ٹکڑے ہو، نبی کے باغ کے پھول ہو، جو کچھ تم کہو گے، منظور کروں گا۔ تمہیں رنجیدہ نہ کروں گا کہ اس طرح حضور کو رنج پہنچے گا۔” اور پھر فرمایا حسینؓ مجھے لے چلو جہاں کہو گے آذان کہوں گا۔
حضرت حسینؓ نے حضرت بلالؓ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مسجد کی چھت پر کھڑا کر دیا۔ بلال نے آذان کہنا شروع کی۔ اللہ اکبر! مدینہ منوروہ میں یہ وقت عجب غم اور صدمہ کا وقت تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وصال فرمائے ایک زمانہ ہوا تھا۔ آج مہینوں کے بعد آذانِ بلالی کی آواز سن کر حضور کی دینوں حیاتِ مبارکہ کا سما بندھ گیا۔ بلالؓ کی آواز سن کر مدینہ منورہ کے بازار گلی کوچوں سے لوگ آن کر مسجد میں جمع ہوئے۔ ہر ایک شخص گھر سے نکل آیا۔ عورتیں باہر آ گئیں اپنے بچوں کو ساتھ لائیں۔ جس وقت بلالؓ نے ”اشھد ان محمد ارسول اللہ” منہ سے نکالا۔ ہزار ہا چیخیں ایک دم نکلیں۔ اس وقت رونے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، عورتیں روتی ہیں۔ ننھے منے بچے اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں کہ تم بتاؤ کہ بلال مؤذنِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کب تشریف لائیں گے؟ حضرت بلال نے جب ”اشھدان محمد الرسول اللہ” منہ سے نکالا اور حضور کو آنکھوں سے نہ دیکھا تو حضور کے غمِ ہجر میں بے ہوش ہو کر گر گئے اور بہت دیر کے بعد ہوش میں آ کر اٹھے اور روتے ہوئے ملک شام واپس چلے گئے۔ )مدارجِ النبوۃ ص ٢٣٦ جل ٢(