جہاد میں تیراندازی کے فضائل اور تیر اندازی سیکھ کر
چھوڑنے والے گناہ گار ہونے کا بیان​


یہ بات اچھی طرح جان لیجئے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی نیت سے تیر اندازی سیکھنا اور سکھنا اور آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کرنا ایسا عمل ہے جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندیدہ قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تر غیب بھی دی ہے آیئے اب ترتیب سے تیراندازی کے کچھ فضائل پڑھتے ہیں۔

( ا) تیر اندازی اللہ تعالی کا حکم​

اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
( ۱ ) و ا عدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ۔ ( سورۃ انفال آیات نمبر ۶۰ )
اور ان کافروں سے لرائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے ( یعنی ہتھیار وغیرہ )۔
بعض علماء کرام نے اسی آیت کی بناء پر تیر اندازی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں قوۃ کے معنی تیر اندازی بیان کئے گئے ہیں۔

٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر فرما رہے تھے : ا عدوا لھم ما استطعتم من قوۃ اور ان کافروں سے لڑائی کے لئے تم تیاری کرو جس قدر تم سے ہوسکے قوت سے، خبردار قوت تیر اندازی ہے ۔ خبردار قوت تیر اندازی ہے ۔ ( مسلم شریف )
[ حضور کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں الرمی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے تیر اندازی سے کیا ہے ویسے عربی زبان میں رمی پھینکنے کو کہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان جامع الفاظ میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ اصل قوت ان ہتھیاروں سے حاصل ہوتی ہے جو دور سے پھینگ کر مارے جاتے ہیں۔ چنانچہ ماضی میں بھی مسلمانوں نے اسی فرمان پر عمل کرتے ہوئے جہاں ایک طرف تیر اندازی میں خوب مہارت حاصل کی تھی اور بھاگتے ہرن کے جس آنکھ کو چاہتے تھے نشانہ بناتے تھے تو دوسری طرف انہوں نے پھینک کر مارنے والے دوسرے ہتھیار بھی تیار فرمائے اور ان میں بھی خوب ترقی حاصل کی۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مسلمانوں نے منجنیق استعمال کی جس کے ذریعے سے بڑے بڑے پتھر دور فاصلے تک مارے جاتے تھے پھر یہ منجنیق مسلمانوں کے ہاں ترقی کرتی چلی گئی اور مسلمانوں نے آتشی تیر اور بڑی بڑی چٹانیں اور بارود تک دشمن پر پھینکنے میں مہارت حاصل کی۔ مگر پھر مسلمانوں نے جہاد کو چھوڑ دیا اور ان کے دشمنوں نےقوت کے اس راز کو جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پر کھڑے ہوکر بیان فرمایا تھا سمجھ لیا چنانچہ انہوں نے میزائلوں میں وہ ترقی حاصل کی جو مسلمان حاصل نہ کرسکے۔ آج جب دنیا میزائلوں کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے اور جس کے پاس جتنی دور تک مارنے والے جتنے زیادہ طاقتور میزائل ہیں وہی دنیا میں زیادہ طاقت والا ہے ان حالات میں ایک طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صداقت چمکتے سورج کی طرح نظر آرہی ہے کہ واقعی اصل قوت پھینگ کر مارنے کی قوت ہے جبکہ دوسری طرف یہ حدیث مسلمانوں کے لئے ایک سولیہ نشان بھی ہے کہ انہوں نے اس فرمان کو بھلا کر اور اس سے غفلت کرکے اپنا کتنا بڑا نقصان کیا ہے ۔ ]

( ۲ ) ایک تیر کی بدولت تین آدمی جنت میں​


٭ حضرت خالد بن زید فرماتے ہیں کہ میں تیر انداز آدمی تھا، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ جب بھی میرے پاس تشریف لاتے تو ارشاد فرماتے اے خالد چلو تیر اندازی کرتے ہیں ایک بار میں نے کچھ سستی کی تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے خالد کیا میں تمھیں وہ بات نہ بتاؤں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالی ایک تیر کی بدولت تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرمائیں گے ( ۱ ) اس تیر کے بنانے والے کو جو بناتے وقت نیکی [ یعنی جہاد ] کی نیت کرے ( ۲ ) اس تیر کو [دشمن کی طرف ] چلانے والے کو ( ۳ ) تیر انداز کے ہاتھ میں پکڑنے والے کو ۔ [ اے مسلمانو ] تم تیر اندازی کرو اور گھڑ سواری کرو اور تمھارا تیر اندازی کرنا میرے نزدیک تمھارے سوار ہونے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور تین کھیلوں کے سوا کوئی کھیل درست نہیں۔ ( ۱ ) آدمی کا اپنے گھوڑے کو تربیت دینا ( ۲ ) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا ( ۳ ) تیر اندازی کرنا۔ اور جس شخص نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی تو اس نے ایک نعمت کو چھوڑ دیا یا نعمت کی ناشکری کی ۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۔ ابو داؤد۔ نسائی۔ المستدرک )