حق تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لئے وحی آسمانی کا سلسلہ جاری فرمایا‘ اس کے لئے جن برگزیدہ نفوسِ قدسیہ کا انتخاب فرمایا‘ اسلامی زبان میں انہیں انبیاء ورسل کہتے ہیں‘ ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عصمت کی ضمانت دی جاتی ہے یعنی ان کا ہرقول وفعل شیطانی تسلط اور نفسانی خواہش سے پاک ہوتا ہے‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

”وما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی“۔ (النجم:۳‘۴)
ترجمہ:۔”اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے‘ وہ تو حکم ہے بھیجا ہوا“۔ ان کی صداقت وحقانیت کو قطعی دلائل وشواہد سے ثابت کیا جاتا ہے تاکہ مخلوق پر حجت قائم ہو اور وہ پوری طرح یقین واطمینان کے ساتھ ان پر ایمان لائیں اور ان کی تصدیق کرسکیں‘ انہی دلائل کا نام ”معجزات“ و”بینات“ ہے‘ ان کی نبوت ورسالت ‘ ان کی صداقت وحقانیت اور ان کی عصمت وضمانت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اطاعت تمام انسانوں کے لئے فرض ہوجاتی ہے‘جیساکہ ارشاد ہے:

”وما ارسلنا من رسول الا لیطاع بإذن اللہ“۔ (النساء:۶۴)
ترجمہ:۔”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے “۔ الغرض آسمانی ہدایت کا اصل منبع وہ ربط وتعلق ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کا بار گاہِ قدس سے قائم ہوتا ہے اور جسے نبوت ورسالت سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ انہیں حق تعالیٰ کی طرف سے برابر پیغامات دیئے جاتے ہیں‘ پیغام رسانی کبھی فرشتہ کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی براہِ راست۔ جس فرشتہ کو اس کے لئے منتخب فرمایا گیا ہے‘ ان کا نام جبریل ہے‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

”وما کان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من وراء حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء“ ۔ (الشوریٰ:۳۸)
ترجمہ:۔”اور کسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اس سے باتیں کرے اللہ‘ مگر اشارہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا بھیجے کوئی پیغام لانے والا پھر پہنچادے اس کے حکم جو وہ چاہے“۔
منبع وحی
یہ پیغام عام طور سے کسی صحیفہ یا کتاب کی صورت میں نہیں‘ بلکہ فرشتہ کی زبانی یا القاء فی القلب کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی اس پیغام کو الفاظ کی صورت میں منضبط کرکے بھیجا جاتا ہے جسے ”صحیفہ“ یا ”کتاب“ کہا جاتا ہے‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اور تورات‘ زبور‘ انجیل ‘ قرآن کریم چار مشہور کتابیں اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں‘ ظاہر ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے اور صحیفوں اور کتابوں کی تعداد نہایت قلیل‘ اس سے صاف طور پر واضح ہوجاتاہے کہ وحی صرف کتاب یا صحیفے میں منحصر نہیں‘ بلکہ نبی ورسول کی ذات گرامی منبع وحی ہے‘ امت کے لئے جس طرح کتاب واجب القبول اور واجب الاتباع ہے ٹھیک اسی طرح نبی ورسول کا ہر حکم وارشاد اور ہرقول وفعل امت کے لئے حجت اور واجب الاتباع ہے‘ البتہ اتنا فرق ہے کہ کتاب بعد کی امت تک قطعی ذرائع سے پہنچتی ہے‘ اس لئے اس کے احکامات کا ثبوت قطعی ہوتاہے اور بقیہ پیغامات کبھی تواتر یا عملی توارث جیسے قطعی ذرائع سے پہنچتے ہیں اور کبھی وہ ذرائع قطعی نہیں ہوتے‘ اس لئے اس دوسری قسم کا درجہ قرآن کریم کی سی قطعیت کا نہیں ہوگا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کریم تو امت کے لئے قابل قبول ہو اور رسول اللہ ا کے دوسرے پیغامات کی معاذ اللہ کوئی قیمت نہ ہو‘ قرآن کریم بار بار اعلان کرتا ہے کہ قرآن کریم کا سمجھانا اور اس پر عمل کرانا یہ آنحضرت ا کا کام ہے‘ قرآن کریم کے اجمال کی تفصیل‘ اس کے الہام کی توضیح‘ اس کے اشارات کی تشریح‘ اس کے مقصد ومنشاء کی تعیین‘ اس کی مشکلات کا حل اور اس کے احکام کی عملی تشکیل یہ سب کام رسول اللہ ا کے ذمہ ہیں جو وحی الٰہی کے ذیل میں آتے ہیں اور امت کے لئے واجب القبول ہیں۔