آنکھوں کی دسترس میں کبھی آ ! دکھائی دے !
دنیا ہو مسترد ! ترا چہرہ دکھائی دے !

اس حال میں بھی اب اسے جی بھر کے دیکھ لوں !
جانے وہ شخص بعد میں کیسا دکھائی دے !

میری نگاہ پر وہ نگاہِ کرم ہوئی !
در جو بھی بند تھا وہ مجھے وا دکھائی دے !

اُس کے گناہ نے تو اُسے معتبر کیا !
سب کو مرا ہی جرم کبیرہ دکھائی دے !

تیری چمک نہ ماند پڑے ! صرف اس لیے !
جتنا تجھے کہا ہے ! بس اُتنا دکھائی دے !

گوشہ نشین شخص ! تری ہر جھلک کی خیر !
عالم ترس رہے ہیں انہیں ! جا ! دکھائی دے !

میں نے کوئی چراغ بھی روشن نہیں کیا !
میں چاہتا نہیں ! کوئی تم سا دکھائی دے !

اب کس طرح بتائیں کہ کیسا دکھائی دے ؟
دکھنے کا حق ادا ہو ! وہ ایسا دکھائی دے !

کچھ نور کا حجاب نہیں نور کے سوا !
رہ کر حجاب میں بھی وہ سارا دکھائی دے !

لہجہ حسین شخص کا منظر سے کم نہیں !
قصہ کرے بیان تو قصہ دکھائی دے !

میں نے دِکھا کے زخم اسے کیا غلط کِیا ؟
وہ چاہتا یہی تھا ! تماشا دکھائی دے !

مجھ پر نہیں یقین تو کربل سے جا کے پوچھ !
کون و مکاں کو ایک ہی سجدہ دکھائی دے !

اندر کی آنکھ سے بھی کبھی اس کی سمت دیکھ !
وہ شخص رو رہا ہے جو ہنستا دکھائی دے !

خصلت میں اس کی صرف یہی ایک نقص ہے !
اس کا ہی وہ سگا نہیں ! جس کا دکھائی دے !

اب تُو بھی کھو نہ جائے یہی ایک خوف ہے !
دیکھ اک دلیر شخص بھی ڈرتا دکھائی دے !

صحرا نورد شخص کی ضد بھی عجیب ہے !
دریا اگر دکھے بھی تو پیاسا دکھائی دے !

ہر درد احترام سے لیتا ہے تیرا نام !
ہر ایک رنج تیرا شناسا دکھائی دے !

اب تم دکھائی دیتے نہیں ! روز خواب میں !
ہم کو ہماری قبر کا کتبہ دکھائی دے !

تم نے خیال سے بھی تعلق رکھا نہیں !
تم سوچتے نہیں ہو ! تمہیں کیا دکھائی دے ؟

وہ شخص ہم کلام ہوا ! تب پتا چلا !
اتنا اداس ہے نہیں ! جتنا دکھائی دے !

آنکھیں بھی شرک کبھی کر نہیں سکیں !
بس اک دعا ہے تُو ہی ہمیشہ دکھائی دے !