صوبہ سرائیکستان
7کروڑ افراد سرائیکی خطے سے تعلق ر کھتے ہیں خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم اورزمینی حقائق ایک عرصے سے تقاضا کررہے ہیں کہ سرائیکی خطہ جسے سرائیکی وسیب کہا جاتا ہے۔ اسے الگ صوبہ بنادیا جائے۔
صوبہ پنجاب کی تقسیم وقت کا تقاضا اور ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے مگر شاید ہمارے ہاں ہر مسئلے کو متنازعہ بنانا کھیل بن چکا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت پنجاب کا بڑا حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ جو ہندوستان کے حصے میں آیا اسے وہاں کے حکمرانوں نے تقسیم کر کے مزیدصوبے بنادیئے ہیں تاکہ وسائل بہتر طریقے سے عوام پر خرچ کئے جاسکیںاور عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے دوردراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔
پنجاب میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث گھمبیر مسائل جنم لے رہے ہیں جو نفرت کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں۔پورے پنجاب کے وسائل ایک ہی شہر پر خرچ کیے جارہے ہیں جوکہ دانشمنداہ اقدام نہیں ہے۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ جب بھی پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔خطہ سرائیکی وسیب بارے زبانی دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر عملی اقدامات اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ اول تو یہاں کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا جاتا ہے اگر شروع ہوجاتا ہے تو اس کو اس قدر طویل کردیا جاتا ہے کہ وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ صحت کی سہولیات پر نظر ڈالی جائے تو سرائیکی وسیب کے عوام کئی دہائیوں تک صرف ایک نشتر ہسپتال میں جیتے اور مرتے رہے۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں باریاں بدل کر حکمرانی کرتی رہی ہیں مگر کسی کو توفیق نہ ہوسکی کہ یہاں کوئی دوسرا بڑا ہسپتال ہی قائم کردیتے۔ سیاسی حکومتوں کو توفیق نہ ہوسکی البتہ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں یہاں دل کے امراض کا ایک ہسپتال قائم کرکے یہاں کے عوام کو اچھی سہولت فراہم کی گئی۔
ملتان میں چلڈرن کمپلیکس کا منصوبہ ایک عرصے سے انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔دورے تو بہت ہوتے ہیں مگر ہسپتال ورکنگ میں نہیں آرہا۔
خواتین کیلئے بنایا گیا فاطمہ جناح ہسپتال چند گھنٹے کھلتا ہے۔ اس کے بعد اگر کسی خاتون کو زچگی کے مرحلے سے گزرنا ہو تو پھر پرائیویٹ ہسپتالوں کی چیرہ دستیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں جہاں عوام کی چمڑی ادھیڑ لی جاتی ہے۔خواتین کے ہسپتال کو 24گھنٹے کھلا رکھنے میں کون سا امر مانع ہے ¾ کوئی نہیں جانتا۔ اگر سٹاف کی کمی ہے تو کیا اسے یہاں کے عوام نے پورا کرنا ہے۔
اسی ہسپتال کے عقب میں ایک عمارت قائم ہے جس کا نام میاں شہباز شریف ہسپتال ہے۔ یہ بھی کسی ٹیوشن سنٹر کی طرح چند گھنٹوں کے لئے کھلتا ہے۔ اسے بند رکھ کے کونسا ثواب کمایا جارہا اس بارے بھی کوئی نہیں جانتا۔ کڈنی سنٹر کا منصوبہ بھی ہر سال بجٹ کا منہ چڑاتا ہے۔ ہر سال رقم مختص ہوتی ہے پھر نجانے کہاں چلی جاتی ہے۔ڈسٹرکٹ ہسپتال کا منصوبہ12 سال سے حکمرانوں کی نظر کرم کا منتظر ہے۔ملتان میں ڈینٹل کالج کی ایک وسیع اور خوبصورت عمارت موجود ہے مگریہ سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ اس شاندار عمارت میں آج تک آپریشن تھیٹر قائم نہیں ہوسکا۔پاک اٹالین برن یونٹ کا کام 70 فیصد باقی ہے ¾رقم ملتی نہیں کام مکمل ہوتا نہیں۔سرائیکی خطہ کے لوگوں کی سہولت کیلئے کینسر سنٹر کی تعمیر کا منصوبہ کئی برس سے بنیادوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔تعلیم کے شعبہ کا حال بھی صحت کے شعبے سے کم برا نہیں ہے۔چند برس قبل ملتان میں زرعی یونیورسٹی کا اعلان کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے لئے الگ سے ایک جگہ کا انتخاب کرکے باقاعدہ یونیورسٹی قائم کی جاتی مگر ایسا نہ ہوا۔ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں شجاع آباد روڈ پر غریب علاقہ کی بچیوں کے لئے بنائے گئے سکول میں اس یونیورسٹی کا افتتاح کردیا گیا اور اس کا نام میاں نوازشریف یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔اس علاقہ کی بچیاں ابتدائی تعلیم کیلئے کہاں جائیں گی، کتنا فاصلہ طے کر کے جائیں گی،کیسے جائیںگی؟ کسی نے نہ سوچا۔ خواتین یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تو یہاں پر بھی اسی قسم کی تاریخ دہرائی گئی۔ گورنمنٹ خواتین کالج کچہری روڈ کو بند کرکے یہاں خواتین یونیورسٹی قائم کردی گئی۔ ہزاروں غریب بچیوں کا مستقبل تاریک کردیا گیا۔ اسی طرح کے دیگرکئی برسوں سے منصوبے التواءکا شکار ہیں ۔منصوبے یہاں اور بجٹ کہیں اور خرچ ہوجاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں لاہور کی سڑکوں سے سرائیکی وسیب کی پھٹی کی خوشبو آتی ہے۔شہریوں کیلئے تفریح گاہوں کا قیام بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ لاہور میں گریٹر فیصل پارک قائم کیا گیا بہت اچھی بات ہے مگر سرائیکی وسیب کے اہم ترین شہر ملتان میں انگریز دور کے ایک پارک کے علاوہ کوئی دوسری ایسی جگہ نہیں ہے جہاں عوام کو تفریح میسر ہوسکے۔ کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ایک‘ دو پارک موجود ضرور ہیں‘ کیا ان پر بجٹ کی رقم خرچ کرنا ممنوع ہے۔ اسی اثناء میں سرائیکی صوبے کا قیام ازحد ضروری ہے تاکہ وسیب کے لوگ اپنے وسائل اپنی مرضی سے خرچ کر سکیں۔