گفتگو میں پہلے جو سب قول و قسم ڈالتے ہیں
بعد میں پھر لوگ وہی آنکھوں میں نم ڈالتے ہیں

ایسے تو جلدی میں ملاقات یہ منظور نہیں
جیسے کہ جاتے ہوئے غلے میں رقم ڈالتے ہیں

تو بھی ہے دریا مرے پاؤں میں ہیں طوفان کئی
دیکھ سمندر میں قدم دونوں بہم ڈالتے ہیں

درد بھری کوئی غزل ہوتی نہیں اُس کے بغیر
اُس کی ہی آنکھوں کے سبھی رنج و الم ڈالتے ہیں

وہ ترا ہرجائی تو ہے، دل یہ شکستہ بھی مرا
کوئی غزل مل کے کہیں دونوں کا غم ڈالتے ہیں

کیسے پلٹ جاتا ہے جاناں کہیں عجلت میں ہلال
آپ کسی سوچ میں جو زلفوں میں خم ڈالتے ہیں

زندگی کو وقف کریں دیکھیں کمالِ ذی وقار
اہلِ وفا قبروں میں خود شاہِ امم ڈالتے ہیں

ٹوٹی کمر کی وجہ بھی خود ہی ہیں ہم سوختہ جاں
دوسروں کا بوجھ بھی تو کندھوں پہ ہم ڈالتے ہیں

ہم کو میسر تھی کہاں زندگی میں کوئی دوا
ہم کو شفا خانے میں بھی آخری دم ڈالتے ہیں

دیکھ کے مہمان زیادہ با مروت سے یہ لوگ
اپنی پلیٹوں میں تبھی کھانا بھی کم ڈالتے ہیں

سامنے آتا ہے کوئی موت پچھاڑے ہوئے تب
جب کبھی اندھیر کہیں اہلِ حشم ڈالتے ہیں

لوگ تھے پہلے کبھی کعبے میں صنم ڈالتے تھے
لوگ ہیں ایسے ابھی ذہنوں میں صنم ڈالتے ہیں

شہرِ محبت نے اگر چھینا قلم ہم سے انیل
خون میں ہم انگلیاں تب مثلِ قلم ڈالتے ہیں