نماز باجماعت سے متعلق بعض ہدایات
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی صفوں میں اچھی طرح مل کر کھڑے ہو اور ایک صف کو دوسری صف کے قریب (قریب) رکھو اور (نماز میں) گردنوں کو بھی سیدھا رکھو اور اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میں شیطان کو صفوں کی خالی جگہ میں گھستے ہوئے دیکھتا ہوں گویا وہ بکری کا ایک بچہ ہے”۔
(سنن ابی داؤد)

فائدہ:۔
نماز توحید کے بعد دوسرا بنیادی رکن ہے۔ ایمان کے بعد نماز سب سے اہم فرض ہے۔ مسلمانوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جو نماز ہی نہیں پڑھتا ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔ (ترمذی)۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نماز ادا تو کرتا ہے لیکن نماز باجماعت کی پابندی نہیں کرتا۔ باجماعت نماز کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ باجماعت نماز تنہا پڑھنے سےستائیس درجہ زیادہ ہوتی ہے۔ (بحوالہ بخاری)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز باجماعت کے متعلق اپنی امت کو مخلتف ہدایتیں دی ہیں۔ ان میں ایک صفوں کا اہتمام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں کی بہترین اور سب سے زیادہ خیروبھلائی والی صف ان کی پہلی صف ہے اور بدترین صف ان کی آخری صف ہے۔ عورتوں کے لیے اس کے برعکس ہدایت ہے۔ (بحوالہ مسلم)۔ ایک حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں نمازیوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اجروثواب زیادہ ملے گا۔ (بحوالہ ابوداؤد)۔ اگر نماز میں دو ہی افراد ہوں تو ایک امام بنے اور دوسرا اس کے دائیں یعنی سیدھے ہاتھ کی طرف کھڑا ہو جائے۔ اس لیے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں طرف کھڑا کیا، (بحوالہ بخاری و مسلم)۔

امام کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات یہ ہیں کہ لوگوں کا امام ایسا آدمی ہو جسے قرآن پاک کا علم زیادہ ہو۔ اگر اس وصف میں لوگ برابر ہوں پھر وہ امام بنے جسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم زیادہ ہو اور اگر اس میں بھی لوگ برابر ہوں تو پھر وہ امام بنے جس کی عمر زیادہ ہو۔ (بحوالہ مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کے فرائض انجام دے تو اسے قرات میں کمی کرنی چاہیے اس لیے کہ مقتدیوں میں بچے، بوڑھے، کمزور اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں۔ ہاں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے۔ (بحوالہ بخاری)۔

مقتدیوں کے لے یہ ہدایت فرمائی کہ امام کی پیروی کریں۔ چنانچہ جب وہ اللہ اکبر کہے تو مقتدی بھی اللہ اکبر کہے اور جب وہ رکوع کرے تو مقتدی بھی رکوع کرے۔ جب وہ سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہ کہے تو مقتدی رَبنَا لَکَ الحَمد کہے اور جب امام سجدہ کرے تو مقتدی بھی سجدہ کرے۔ (بحوالہ ابوداؤد)۔ غرض یہ کہ ہر طرح سے امام کی پیروی کرے اور کسی چیز میں امام سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔

اقامت کے سلسلے میں آتا ہے کہ نماز کی تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھ لینے پر کہی جاتی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی جگہ پر کھڑے ہونے سے پہلے صفیں درست کرلیتے، (بحوالہ مسلم)۔ ایک روایت میں یوں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی اقامت کے وقت جب تک مجھے نہ دیکھ لو اس وقت تک کھڑے نہ ہو۔ (بحوالہ مسلم)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے کہ نماز کے لیے اطمینان، سکون اور وقار سے آنا چاہیے۔ (بحوالہ بخاری)۔ یعنی دوڑ بھاگ نہیں کرنی چاہیے کہ کسی طرح رکعت حاصل کرلی جائے۔