محبت قدرت کا انعام ہے محبت کے کئی روپ ہیں محبت کے بغیر روح کا چشمہ خشک رہتا ہے ۔تا ہم یہ قدرت کا سب سے بڑا انعام ہے اور دنیا کی حسرتوں میں سب سے بڑی حسرت ہے ۔سچی محبت میں حسن بھی ہوتا ہے خلوص بھی،وہ فولاد کی طرح مضبوط رہتی ہے ،محبت میں اتنی طاقت ہے کہ وحشی کو انسان بنا سکتی ہے۔
انسانو ں سے محبت دراصل خدا سے محبت کرنا ہے ۔ اور انسانو ں کی خدمت میں خدا کی خدمت ہے ۔ محبت کو ہم جس سے بھی تشبیہ دیں یہ اس میں ڈھل جاتی ہے ۔ یہ اگر خدا سے ہے تو بندگی ہے والدین سے ہو تو اطاعت ہے ۔بندہ کا محبت پر کوئی اختیار نہیں ہے لیکن حسن کا اختیار ہے۔حسن فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کس سے محبت ہوگی ۔خدا خود جمیل ہے ا ور چونکہ حسن خدا کا حسن ہے اس لئے خدا ہی فیصلہ کر ے گا کہ کس وقت کتنا اپنے بندہ پر جلوہ گر ہو ۔ ۔
محبت ایک ایسی شئے کا نام ہے جو کسی کے بتانے اور سیکھنے کی نہیںبلکہ یہ اپنا راستہ خود نکال لیتی ہے ۔محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو سنگ دل کو نرم خو اور بزدل کو بہادر بناتی ہے۔محبت خوشیا ں دیتی ہیں تو ساتھ ساتھ غم سہنا بھی سکھاتی ہے۔محبت میٹھی نیند سلا تی ہے اور راتوں کی نیند بھی اڑاتی ہے ۔محبت کیلئے ضرور ی نہیں کہ محبوب کا چہرہ بھی خوبصور ت ہو۔کیونکہ محبت خود ایک خوبصورت جذبہ ہے ۔
محبت کا موضوع ہر تہذیب میں کثرت سے اواراق کی زینت بنا اور اس کے باوجو دمحبت کے لٹریچر کی ورق گردانی کرنے والوں کی غالب اکثریت کو نہ ہی پوری طرح محبت کی سمجھ آئی اور نہ ہی محبت کی وسعت کا اندازہ ہوا کہ محبت کیا ہے ؟بعض کہتے ہیں محبت خیال ہے ' اور بعض محبت کے جذبہ کو زندگی کی حقیقت جانتے ہیں۔لیکن یہ محبت کا جذبہ خلقی ہے یعنی پیدائش سے ہی سے بچہ میں محبت کی کشش کا ظہور ہوتا ہے بارہا دیکھا گیا کہ پیدائش کے بعد قدرتاََ اسکا میلان طبیعت ماں کی طرف بڑھتا جاتا ہے ۔بچہ کو ماں سے تعلق محبت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور اسے ہر وقت ماں کا خیال دامن گیر رہتا ہے ۔محبت کی حقیقی عکاسی فطرت کے حوالہ سے یوں بیان ہوئی ہے۔'' منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں' ایک اس بر تر ہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر ہی اندر انسان کے دل میں ایک کشش موجود ہے اور اس کی تلاش کا اثر اسی وقت سے محسوس ہونے لگتا ہے جبکہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتاہے ۔کیونکہ بچہ پیدا ہو تے ہی پہلے روحانی خاصیت اپنی جو دکھلا تا ہے وہ یہی ہے کہ وہ ماں کی طرف جھکا جاتا ہے اور طبعاََ اپنی ماں کی محبت رکھتا ہے اور پھر جیسے جیسے حواس اس کے کھلتے جاتے ہیں اور شگوفہ فطرت اس کا کھلتا جاتا ہے یہ کشش محبت جو اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اپنا رنگ و روپ نمایاں طور دکھاتی چلی جاتی ہے ۔ پھر تو یہ ہوتا ہے کہ بجز اپنی ماں کی گود کے کسی جگہ آرام نہیں پاتا اور پورا آرام اس کا اسی کے کنار عاطفت میں ہوتا ہے ۔اور اگر ماں سے علیحدہ کردیا جائے اور دور ڈال دیا جائے تو تمام عیش اس کا تلخ ہو جاتا ہے ۔اور اگرچہ اس کے آگے نعمتوں کا ایک ڈھیر ڈال دیا جائے جاوے تب بھی وہ اپنی سچی خوشحالی ماں کی گود ہی میں دیکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی طرح آرام نہیں پاتا ۔
سو وہ کشش محبت جو اس کو اپنی ماں کی طرف پیدا ہوتی ہے وہ کیا چیز ہے ؟ در حقیقت یہ وہی کشش ہے جو معبود حقیقی کے لئے بچہ کی فطرت میں رکھی گئی ہے بلکہ ہر ایک جگہ جو انسان تعلق محبت پیدا کرتا ہے درحقیقت وہی کشش کام کرر ہی ہے اور ہر ایک جگہ جو یہ عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے در حقیقت اسی محبت کا وہ ایک عکس ہے ۔گویا دوسری چیزوں کو اُٹھا اُٹھاکر ایک گمشدہ چیز ( محبوب حقیقی کی محبت ) کی تلاش کر رہا ہے۔جس کا نام وہ بھول گیا ہے ۔سو انسان کا مال سے یا اولاد یا بیوی سے محبت کرنا یا کسی خوش آواز کے گیت کی طرف اس کی روح کا کھنچے جانا در حقیقت اسی گم شدہ محبوب کی تلاش ہے ۔۔( منقول از کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ٥٨ ' ٥٩)
پس محبوب حقیقی کی محبت کا یہ جذبہ فطرت میں ودیعت کردہ ہے اور اسی جذبہ کے تحت انسان کی خواہش ہے کہ اُسے ایک محبت کرنے والی ہستی مل جائے ۔ گویا یہ جذبہ محبت انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک بلکہ ایک نا معلوم زمانہ تک اس کے ساتھ جاتا ہے ۔پس انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کشش محبت رکھ دی درحقیقت یہ وہی کشش محبت ہے کہ انسان ہر جگہ انسانی رشتوں میں عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے در اصل انسانی رشتوں کی محبتیں اسی معبود حقیقی کا عکس ہیں۔ جس کی انسانی روح متلاشی ہے ۔ محبت کا بیج اس کے دل میں پھوٹتا ہے ۔ اور محبت کا متلاشی انسانی رشتوں میں محبت کے بیج کی نشونما کرتا ہے ۔محبت کا متلاشی پہلے ماں میں تسکین و حفاظت تلاش کرتا ہے ۔پھر اسے دوستوں میں ڈوندھتا ہے اور پھر اپنی زوج میں پانے کی کوشش کرتا ہے ۔مگر تمام چیزیں وقتی توجہ اور تسکین و حفاظت کا موجب بنتی ہیں مگر ابدی سکون نہیں دیتیں اور انسان کسی ایسی ہستی کو چاہتا ہے کہ جو صرف وقتی سکون دینے والی نہ ہو بلکہ وہ ایسی ہستی ہو جس سے اس کی روح کا اتصال ہوسکے ۔گویا ایسی محبت کرنے والی ہستی کی تلاش جاری رہتی ہے ۔ جو اس کی روح کی حقیقی زوج کی بننے کی خوبیاں رکھتی ہو جو سب دنیوی رشتوں سے اعلیٰ ارفع ہو۔ دنیاوی رشتے جو خدا تعالیٰ کے ہی پیدا کردہ ہیں اور یہ رشتے خدا کی محبت کا عکس ہیں۔تاکہ انسان محبت کے رشتوں سے گزر کر اپنے دل کو مختلف قسم کی محبتوں سے گداز کرکے خود کو محبوب حقیقی کی محبت کے قابل خود کو بنا سکے ۔
۔غرضیکہ یہ ایک عام زوجیت ( جوڑا ) ہے جو دنیا میں نظر آتی ہے ۔علاوہ ان کے اخصُ زوجیت ہے کہ جس طرح ایک چھلکے سے دوبادام نکلتے ہیں اور اگر ان کو جوڑا جائے تو وہ ایک ہوسکتے ہیں ۔پس اس لئے جوڑے کا صحیح جوڑ ملنا ضروری ہے ۔پس حقیقی امن اور راحت کا قیام عورت مرد کے صحیح جوڑے کے ملنے سے ہی میسر آسکتا ہے ۔
خداتعالیٰ نے مرد عورت میں اپنی مخفی محبت پیدا کردی اور پھر اس کے جوڑے میں ایک دوسرے لئے کشش اور محبت رکھ دی ۔ اور مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی خواہش پیدا کی۔وہ مُبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا کی ہی ہے ۔ محبت کے مختلف رنگ اور روپ ہیں ۔لیکن زیادہ تر محبتیں بے لوث نہیں ہوتیں بلکہ اغرا ض مین لپٹی ہوئی ہوتی ہیں یعنی ایسی محبت کو الفاظ کا لبادہ پہنا کر اپنی محبت پر یقین دلانا مقصود ہوتا ہے۔ بعض لوگ خوبصورت الفاظ میںلپٹی ہوئی اظہار محبت کو محبت سمجھ کر کسی کی محبت پر یقین کرلیتے ہیں۔ایسی محبتوں کے ظاہر پر یقین کرلینے والوں کو باربار محبت کے نام پر دھوکے کھانے پڑتے ہیں۔اغراض پر مبنی وقتی محبت کا ورد زبانوں پر جاری ہے اور ایسی محبت کا چرچا گھروں میں گلیوں بازاروں میں ہر جگہ سُنا ئی دیتا ہے ۔یوں تو جیسے ہرشخص جانتا ہے کہ بے شمار رشتوں کو محبت کا نام دے دیا گیا ۔صرف نام دینے سے محبت پروان چڑھ نہیں سکتی ۔محبت کے تقاضے پورے کئے بغیر محبوب کے دل میں اپنی جگہ بنا ئی نہیں جا سکتی ۔
لیکن ایک دور تھا کہ ہماری مشرقی سوسائیٹی میں محبت وفا کے مثالی کردار نظر آتے تھے ۔لیکن آج کے دور میں زیادہ تر مشرقی خاندانوں میں سب کچھ نظر آتا ہے بے لوث محبت نہیں ملتی ۔ ایسے خاندان دل میں بغض و کینے پالنے والے کسی کو نقصان پہچانے کیلئے محبت کا لبادہ پہن کر منافقت کرتے ہیں ۔ پس ہمیں زیادہ تر محبت کے دعاوی تو نظر آتے ہیں محبت نظر نہیں آتی ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کے لئے اور عورت کے پیچھے اپنی محبت کو چھپادیا اور مرد عورت کے درمیان ایک خواہش رکھ دی کہ وہ اپنے جوڑے سے تعلق پیدا کریں اور اپنے جوڑ ے میں اپنی محبت تلاش کریں اور اپنے رفیق زندگی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کے جوڑے بنائے چرند پرند کے بھی جوڑے بنائے مرد عورت کا بھی جوڑا بنایااور مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی خواہش رکھ دی اور ان کے آپس میں تعلق محبت ہی انسانی رشتوں کی ضرورت تمام انسانی رشتوں کی محرک ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر نفس کا جوڑا بنایا ( سورہ شوری ٰ آیت ١٢) گویا کوئی نفس ایسا نہیں کہ جس کے لئے ویسا جوڑ ا نہ ہو۔ ۔صوفیا نے لکھا ہے کہ ارواح بھی اپنے جوڑے کی تلاش میں پھرتی رہتی ہیں ۔جب جوڑا مل جائے تو تب تسلی پاتی ہیں ۔
لیکن آزاد منش جوڑوں میں ( مغربی تہذیب کے دلدادہ مشرقی جوڑے ) عام طور پر اپنا جوڑا بنانے کی خواہش ایک عارضی جوش محبت ( جو زیادہ تر شہوت کے زیر اثر ہوتا ہے ) کی بناء پر آپس میں تعلق قائم کر لیتے ہیں ۔ لیکن بعد میں انہیں اپنے جوڑے کے غلط انتخاب کی خفت اُٹھانی پڑتی ہے (یہ اہل یورپ کا تلخ تجربہ ہے ) ان کے دانشور کہتے ہیں جب کسی اجنبی سے محبت ہوجاتی ہے تو اس کے لئے روح کو ایک قسم اتصال ہوجاتا ہے ۔لیکن پھر طرفین کو احساس ہونے لگتا ہے کہ انہوںنے غلطی کی ہے 'اس وجہ سے وہ متحد نہیں رہ سکتے اور اصل اتحاد اُس وقت ہوتا ہے جب حقیقی جوڑا آپس میں مل جائے ۔ آجکل علم النفس کے ماہرین ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ جب کوئی شادی کامیاب ہوتی ہے تو اس لئے کامیاب ہوتی ہے کہ وہ صحیح جوڑا ہوتا ہے ۔اورجب کوئی شادی ناکام ہوتی ہے تو اس کے لئے وہ ا صلی جوڑا نہیں ہوتا ۔
پس حقیقی امن اور راحت کا قیام عورت مرد کے صحیح و حقیقی جوڑے کے ملنے سے ہی میسر آسکتا ہے ۔ انسانی تکمیل کے لئے اگر جوڑا بہت ضروری ہے تو جوڑے کا صحیح انتخاب اس سے بھی زیادہ ضرور ی ہے ، حقیقی جوڑے کے انتخاب میں جہاں احتیاط و بہترین تدابیر ضروری ہیں وہاں خدا سے دعا اور اس کی استمداد بھی ضروری ہے ۔مگر انسان مکمل طور پر دنیوی رشتوں یعنی زمینی سہاروں پر تکیہ نہیں کر سکتا ( یعنی اپنے مناسب حال صحیح جوڑے کی مل جانے کے باوجود ) ایک نامعلوم محبت کی کمی اسے ستائے رکھتی ہے ۔
غالباََ اسے ایسی محبت کی تلاش ہے ( جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہے ) وہ ایک اعلیٰ ارفع برتر ہستی کی محبت کی کشش ہے جو انسان کے اندر ہی اندر انسان کی فطرت کو لاحق ہے ۔کیونکہ ہرجگہ جو انسان عاشقانہ جوش دکھلا تا ہے وہ د ر حقیقت اسی ( معبود حقیقی ) کی محبت کا وہ ایک عکس ' اور اس عکس محبت نے انسان کی فطرت میں لگی ہوئی پیاس کی پوری تشفی کے سامان نہیں کئے ۔ یعنی ان تمام( عکس) محبت کے رشتوں سے جن سے انسان گزر کے آ یا تھادر اصل ( یہ محبتیں ) معبود حقیقی کی صفات کے پر تو تھے پس عکس ' عکس کی حد تک رہتا ہے ۔اورجب دنیوی رشتوں کی اس پر حقیقت عیا ں ہوجائے اور جب محبت کے طلبگار کو اس کا ادراک معرفت ہوجاتی ہے کہ یہ دنیوی رشتے حقیقت کا روپ دھار نہیں سکتے ۔تو وہ خدا کے بتائے ہوئے رستہ پر چل کر تعلق باللہ قائم ہو جانے کے بعد اپنے گم شدہ محبوب برتر ہستی کی تلاش محبت کا مسافر اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔ لیکن انسان اپنی ناتمام عقل سے اس کو یعنی خدا کی محبت کو پا نہیں سکتا۔لیکن جو خداکے رستہ کا مجاہد بن کر اس کے بتائے ہوئے رستہ پر جدوجہد جاری رکھتا ہے۔اور اس کے لئے اصل مقصود پانے کے لئے اس نے وسیلہ دعا ٹھہرایا ۔ اُد عُونیَِ اَ ستَجِب ُ لُکم( المومن : ٦١) یعنی تم دعا کرو میں قبول کروں گا۔'' بار بار دعا کے لئے رغبت دلائی تاکہ انسان طاقت سے نہیں خدا کی طاقت سے خدا کو پاوے ۔
Bookmarks