دونوں جہان میں ہے تو ہی بس
ہے دِل کو مرے تیری جُستُجو ہی بس

چھُپ کے پردوں میں کب تو رہتا ہے
ہر تن لہو کے سنگ بہتا ہے

دِل میں سبھی کے تو دھڑکتا ہے
طُور پے شعلہ بن بھڑکتا ہے

جانے جو خود کو تُجھے پاتاہے
رُوح بن کر تُو ہی سماتا ہے

رُوح کے بعد پھر بچا کیا ہے
جسم پانی کا بُلبُلہ سا ہے

زندگی میں بھی عیاں تو ہی ہے
ظاہر ہے تو پنہاں بھی تو ہی ہے