حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جامع ترمذی کی کتاب المناقب باب مناقب الحسن والحسین، حدیث نمبر 3708 ہے ''حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت فرمائے جو حسین سے محبت کرے، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔''

امام حسین علیہ السلام کے مختصر سوانح حیات
آپ کا نام و نسب ہے، حسین ابن علی ابن ابوطالب ابن عبدالمطلب ابن ہاشم القرشی الہاشمی ہے۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ (عبداللہ آپ کے چھوٹے بیٹے حضرت علی اصغر کا نام ہے)، آپ کے القاب سبط رسول، ریحانہ رسول، سید شباب اہل الجنہ وغیرہا ہیں۔ آپ کی والدہ سیدہ النساء حضرت فاطمة الزہراء ہیں۔ آپ 5 شعبان المعظم 4 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

آپ کی ولادت اور شہادت کے متعلق پیش گوئی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولادت سے پہلے ہی آپ کے بارے میں پیش گوئی فرمادی تھی۔
چنانچہ ''مشکوة المصابیح'' کی کتاب مناقب اہلبیت کی فصل ثالث صفحہ نمبر 572 میں حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا (زوجہ عم رسول حضرت عباس رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ''وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے ایک ناپسندیدہ خواب دیکھا ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی وہ بہت ہی ناپسندیدہ ہے۔ فرمایا: وہ کیا ہے؟ عرض کی میں نے دیکھا ہے گویا آپ کے جسم کا ایک ٹکڑا آپ کے جسم سے جدا ہوا ہے اور میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''تو نے اچھا (خواب) دیکھا ہے، فاطمہ ان شاء اللہ بیٹا جنم دے گی وہ تمہاری گود میں ہوگا۔''

پس جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ویسے ہی ہوا اور حسین (رضی اللہ عنہ )میری گود میں آئے۔ فرماتی ہیں ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہیں (حسین علیہ السلام کو) آپ کی گود میں رکھا دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے؟ فرمایا جبرائیل علیہ السلام ابھی آئے ہیں اور انہوں نے خبر دی ہے کہ
''بیشک میری امت کے لوگ میرے اس بیٹے کو قتل کر دینگے۔ میں نے کہا اس بیٹے کو۔ تو کہا ہاں اور میرے پاس سرخ رنگ کی مٹی بھی لائے ہیں۔''

''تہذیب التہذیب'' امام ابو الفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی، جز: 2، صفحہ: 300، طبع دار الفکر بیروت میں ہے: محدث ابو نعیم نے روایت کیا کہ ''حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا ''کرب وبلاء کی بو ہے۔ اور اے ام سلمہ جس روز یہ مٹی خون میں بدل جائیگی تو جان لینا کہ میرا بیٹا قتل کردیا گیا ہے۔ فرماتی ہیں میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں محفوظ کرلیا۔''

اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ حضرت علی المرتضیٰ حضرت فاطمہ الزہراء حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور دیگر سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور مقام شہادت کے بارے میں روایات اور پیش گوئیاں کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہلبیت میں سے کسی سے اس حادثہ فاجعہ کے ٹل جانے کی دعاء ثابت نہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام اہل بیت رسول چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام اس امتحان عظیم سے گزر کر جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کا حق ادا کرکے مسلمانوں کیلئے روشنی کا اونچا مینارہ ثابت ہوں اور خدا تعالیٰ کے ہاں اعلیٰ و ارفع درجات کے مستحق ٹھہریں

امام حسین علیہ السلام کے چند دیگر سوانح:
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب حسین کی ولادت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے میرا بیٹا دکھائو! تم نے اس کا کیا نام رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا ''حرب'' فرمایا بلکہ وہ حسین ہیں۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے تینوں نواسوں (حسن، حسین اور محسن) کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کان میں اذان پڑھی۔ تحنیک فرمائی (یعنی کھجور چبا کر لعاب میں مکس کرکے کھلائی)، عقیقہ فرمایا، بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسین علیہ السلام سے بے حد پیار تھا۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کی بالوں سے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ حسن آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر فاطمہ آئیں تو انہیں چادر میں داخل فرمالیا پھر علی آئے تو انہیں چادر میں داخل فرمایا پھر فرمایا: ''اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے پلیدی کو دور رکھے اے اہلبیت اور تم کو خوب پاک فرمائے۔'' اسی حدیث مبارک سے پنجتن پاک کی اصطلاح بنی۔

ہجرت کے 9 ویں سال جب نجران کے عیسائیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی جب آپ نے دلائل سے اتمام حجت فرمائی تو آپ نے انہیں مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے) کا چیلنج کیا۔ اس موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباہلہ کیلئے تشریف لائے تو حضرت حسین علیہ السلام کو آپ اٹھائے ہوئے تھے۔ حضرت حسن علیہ السلام دائیں جانب اور حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما آپ کے پیچھے۔ اس موقع پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری (اسقف) نے کہا:

''اے عیسائیوں کی جماعت ہرگز مباہلہ نہ کرنا میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے سوال کریں کہ وہ پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو جڑوں سے اکھاڑ دے گا۔ پھر کہا اگر تم نے آج مباہلہ کرلیا تو تمہارا نام ونشان مٹ جائیگا اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نظر نہیں آئیگا۔ اسکے بعد عیسائیوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر صلح کرلی۔''

ان روایات سے شہزادہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت شان روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

اسی طرح خلفاء ثلثہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں شہزادہ رسول حضرت حسین علیہ السلام سے بے پناہ محبت فرمائی۔ فتح ایران کے بعد جب بے پناہ خزانے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئے تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ 2 دو ہزار درہم مقرر فرمایا اور نواسہ رسول حضرت حسین علیہ السلام کا وظیفہ پانچ ہزار درہم مقرر فرمایا اور شاہ ایران یزد جرد کی بیٹی حضرت شہر بانو کو امام حسین علیہ السلام کے نکاح میں دیا۔ جب خلیفہ اسلام حضرت عثمان غنی رضی اللہ علیہ کے مخالفین نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو حضرت امام حسین و امام حسن رضی اللہ عنہما دونوں شہزادوں نے ننگی تلواریں پکڑ کر آپ کے دروازے پر پہرہ دیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی سیرت طیبہ:
آپ انتہائی خوبصورت تھے۔ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوئی شخص حضرت حسن سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ نہ تھا اور فرمایا حضرت حسین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔ جامع ترمذی میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینہ سے سر تک اور حسین سینہ سے قدم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت مشابہ تھے۔

امام الشاہ احمد رضا رحمة اللہ علیہ نے فرمایا
اس نور کی جلوہ گاہ تھی ذات حسنین آدھے سے حسن بنے آدھے سے حسین

غرض یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی المرتضیٰ وسیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہما کی بے مثال تربیت کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام انتہائی پاکباز، متقی، پرہیزگار، شب بیدار، روزوں کی کثرت کرنے والے، بے حد صدقہ و خیرات کرنے والے، انتہائی بہادر، غیور، صاحب استقامت، حق گو، نیکی کے کاموں میں بڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔

آپ کی شہادت :
رجب 60ھ میں صحابی رسول کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وصال فرماگئے۔ ان کے بعد ان کا بیٹا یزید بن معاویہ تحت نشین ہوا تو گورنر مدینہ ولید بن عقبہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام سے یزید کی بیعت (یعنی یزید کی حکومت کی تائید کرنے) کا مطالبہ کیا تو آپ نے یزید کے فسق و فجور کی بنیاد پر اس کی بیعت کرنے سے صاف صاف انکار فرمادیا۔