[SIZE="5"]
اللہ تعالیٰ کے بارے میں مذاہب ِباطلہ کا تصور
[center]ہندو مذہب میں اللہ کا تصور
یہ کہنا غلط ہے کہ ہندو اللہ کے منکر ہیں۔ ہندو صرف ایک اللہ کو مانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اللہ کو کسی دوسرے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مثلاََ ان کی مشہور مذہبی کتاب ”بھگوَت گیتا“میں اللہ تعالیٰ کو ”وِشنو “ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کو تمام عیوب سے پاک ، ہر شے کا خالق، نگران اور فنا کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ اسی کو مظلوموں کی پناہ گاہ اور حق کے متلاشیوں کی منزلِ مقصود قرار دیا گیا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وشنو، او تاروں کی صورت میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے۔ بقول ان کے، نرسنگھ اس کے چوتھے، رام چندر جی ساتویں اور کرشن جی مہاراج آٹھویں اوتار ہیں۔ بقول ان کے، وشنو مختلف وقتوں پر مختلف صورتوں میں زمین پر ظاہر ہوتا ہے۔ عین اسی طرح جس طرح آج مسلمان بھی کہنے لگے ہیں!
وہی جو مستویٴ عرش تھا خدا ہو کر
اتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچڑ وانگ مدینہ ڈِسے تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
ظاہر وِچ پیر فریدن تے باطن وچ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹی دا بت بنا کے آپے وِچ بہہ گیا
جگاں نوں بنان والا کیہڑی کھیڈے پے گیا
(استغفراللہ، نعوذ باللہ ثم نعوذباللہ)

ہندو عقائد کے مطابق ان بزرگوں کی عبادت فی الحقیقت ”وشنو“ کی ہی عبادت ہے۔ اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ان دیوتاوٴں کو خوش کرنا لازم اور ضروری ہے۔ ورنہ کہاں اللہ اور کہاں یہ آدم ِخاکی۔ غور فرمائیں کہ آج کے مسلمانوں کا عقیدہ اس سے کسی مقام پر مختلف ہے۔ یا یہی ہے؟
جنگِ عظیم دوم کے شعلوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مجھے بھی فوجی ملازمت کے سلسلہ میں مشرقِ بعید (برما وغیرہ) میں گھومنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں عوامُ النّاس کا مذہب بُدھ َمت ہے۔ ان کے گھروں اور عبادت خانوں میں جانے کا اکثر اتفاق ہوا۔ گوتم بدھ کے بت دیکھے۔ ان کا عقیدہ بھی ہندو سے ملتا جلتا ہے، صرف ناموں کا فرق ہے۔
بتوں کے پجاری
یہ کہنا غلط ہے کہ بُت پرست لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی پتھر کو پتھر ہی جانتے ہیں۔ اگر پتھروں کی پوجا مقصود ہوتی تو وہ پہاڑوں کی پوجا کرتے۔ جہاں بڑے بڑے پتھر ہوتے ہیں اور وہ سڑکوں پر پتھر استعمال کر کے پتھر کی بے حرمتی کبھی نہ کرتے۔ مگر پتھر کو جب کسی قابل احترام بزرگ شخصیت سے منسوب کر کے لایا جاتا ہے تو پھر اس پتھر کا احترام کرنا اور اس کی پوجا کرنا وہ فرض جانتے ہیں۔ وہ دراصل اُ ن بزرگوں کی پوجا کرتے ہیں جن سے وہ پتھر یا لکڑی کا بت منسوب ہوتا ہے۔ مقصود بُت نہیں بلکہ بزرگ کی ذات ہوتی ہے۔ بت کا پجاری دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ پوجا بزرگ کی مقصود ہوتی ہے۔
انقلابات زمانہ
جاپان کے شہر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم (بڑا لڑکا اور چھوٹا لڑکا) نامی گرائے گئے۔ جاپان ختم ہو گیا۔ جاپان کی شکست کے ساتھ ہی جرمن فوجیں بھی منتشر ہو گئیں اور جنگ ِعظیم دوم ختم ہو گئی۔ پھر پاکستان بن گیا۔ الحمدللہ۔ ہندو دوست بھارت چلے گئے، مسلمان دوست میسر آئے۔ وہ وقت بھی عجیب تھا کہ جذبہٴ اسلام سب میں شدت سے پایا جاتا تھا۔ سب کے سب صوم و صلوٰہ کے پابند تھے۔ صبح اور دوپہر کو تلاوتِ قرآن باقاعدگی سے کرتے تھے۔ میرے کانوں نے قرآن کی تلاوت نہایت ہی میٹھی پرکشش آواز میں پہلی بار 14 اگست 1947ء کو رات بارہ بجے ریڈیو پر سنی۔ ”صحبت صالح ترا، صالح کند“ کے مصداق مجھے بھی زندگی میں پہلی بار قرآن پاک پڑھنے کا شوق ہوا۔ میرے باپ کی دعاوٴں نے اپنا اثر دکھایا اور میں عملاً مسلمان ہو گیا۔ مندر کے بجائے مسجد جانے لگا۔ میں بھی آہستہ آہستہ قرآن پاک پڑھتا تھا۔ مگر میرے دل میں ایک بات راسخ ہو چکی تھی کہ بغیر ترجمہ کے قرآن پڑھنا دوسری زندگی میں تو مفید ہو گا مگر اس زندگی میں ہر گز مفید نہیں ہے۔ اس لیے میں قرآن کے عربی الفاظ کے ساتھ اردو ترجمہ پر زیادہ غور کرتا تھا۔ میں نے ایک چھوٹا سا قرآن پاک خریدا۔ جو تاج کمپنی کا شائع کردہ تھا اور نیچے لفظی ترجمہ لکھا ہوا تھا۔ وہ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں ایک روز میں چند ہی آیات پڑھتا تھا اور ان کا ترجمہ ذہن میں رکھتا۔ آیات کو ملا کر نتائج اخذ کرتا رہتا تھا۔ اس طرزِ عمل پر میرا اختلاف بھی کچھ دوستوں سے ہوا۔
میں نے قرآن پاک میں پڑھا تھا:
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوالْاَالْبَاب (ص : 29 )
”یہ بابرکت کتاب ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں ۔‘ ‘ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (محمد )
”توکیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟“میں نے سوچا کہ
کیوں زیاں کار بنوں ،سُود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غم دوش رہوں!
(شکوہٴ اقبال)