مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآنی آیات کی روشنی میں ایک جھلک

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے بہت سے مقامات پر اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت انتہائی خوبصورت انداز میں واضح

فرمائی ہے۔ جس سے ہمارے آقا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بارگاہِ الہیہ میں کمال شانِ محبوبیت آشکار ہوتی ہے۔ مثلاً

سورۃ الفتح کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی نے فرمایا ۔۔


. إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاo



اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں)اللہ کا)



ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے



پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا




حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کوئی تعلق باللہ تعالی کے خلاف یا جدا چیز نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی

ذات مبارکہ، کوئی اللہ کا غیر یا معاذاللہ مخالف نہیں ہے۔ بلکہ قرآن حکیم کے اس مقام سمیت متعدد مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


کے ساتھ کسی بھی معاملے کو اللہ رب العزت نے خود اپنے ساتھ معاملہ قرار دے کر یہ واضح کیا کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی

شانِ محبوبیت یہ ہے کہ اے لوگو ! جو معاملہ تم میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہو۔ میں اسے اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہوں۔ اے

میرے محبوب نبی کے صحابہ ! تم نے بیعت میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کی ۔ لیکن میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے

بیعت کرنا دراصل خود اللہ سے بیعت کرنا ہے۔ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد و پیمان کرنا خود اللہ رب العزت سے عہد

و پیمان کرنا ہوا ۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامِ بندگی پر عاجزی کا اظہار
ایک غلط فہمی کا ازالہ :


اہم نکتہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف محبوبِ خدا ہی نہ تھے۔ بلکہ امت کے لیے اسوہء کامل بھی تھے ۔ اور اسوہ کامل اس

وقت تک نہیں بن سکتے تھے جب تک اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بندگی کی انتہا تک نہ پہنچتے ۔ اور بندگی کی انتہا بارگاہ الہیہ میں عاجزی

کی انتہا سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے مقام بندگی پر فائز ہوتے ہیں تو عجز و انکساری کی انتہا ظاہر

فرماتے ہیں۔ کہ مولا ! میں تو کچھ بھی نہیں۔ نہ میرا علم، نہ میری دانش، نہ میرا ادراک، اے اللہ کریم سب کچھ تیری عطا ہے۔ مولا ! میں تو تیرا

عاجز عبادت گذار بندہ ہوں۔ مجھے تو کوئی طاقت و اختیار نہیں ، جو کچھ ہے تو ہی قادرِ مطلق ہے (او کما قال ) ۔

ہمیں بطور امتی ، عبادات، مناجات، بارگاہ الہی میں خود کو پیش کرنے کے طریقے سکھانے کے لیے یہ ساری تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ

وسلم حق ہیں اور ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو بھی اسی عاجزی کا مظہر بننا چاہیے۔ بلاشبہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ

وسلم سے تعلق کے لیے ذاتِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی پہلو اہمیت کا حامل ہے۔

مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عاجزی کو " مقام و عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم " ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب ذاتِ

مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کو سمجھنے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلقِ غلامی قائم کرنا پیش نظر ہو اور ایمان کی

اصل حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرایمان و عقیدہ قائم کرنے کا وقت آئے تو پھر ہمیں ذاتِ

مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلو دیکھنا ہوگا جو اللہ رب العزت ہمیں قرآن حکیم میں دکھاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ

علیہ وسلم بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ یہ بندگی کی انتہا

ہے۔ ہمیں بطور امتی جب بارگاہ الہی میں آداب بندگی بجا لانا ہو تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کامل کی پیروی کرنا ہے۔

لیکن جب مقام اور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعین کرنا ہو اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو قلب و روح میں جانگزیں

کرنے کا مرحلہ ہو تو پھر ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمین شریفین متورم ہونے پر بارگاہ الہیہ سے کیا جواب اور رد

عمل آتا ہے ۔

آئینہء قرآن میں مقامِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن مجید کو بنظر غور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اور مقام شان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

بارگاہ الہی میں اپنے مقام بندگی پر کھڑے ہوکر اتنی طویل عبادت کرتےہیں کہ قدمین شریفین متورم ہوجاتے ہیں۔ اس پر بارگاہ الہیہ سے

حضرت جبریل علیہ السلام کو اتارا جاتا ہے۔ قرآن بنایا جاتا ہے کہ


مَا اَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىo


(القرآن ۔ ۲۰:۲)


اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں )



قربان جائیں ۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان محبوبیت کو کتنے خوبصورت اور محبت بھرے انداز میں واضح فرمایا

ہے ۔ اللہ رب العزت کو اپنے حبیب کا مقام بندگی بھی پسند ہے لیکن اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا مشقت میں پڑنا اور طبیعت مقدسہ پر

بوجھ پڑنا بھی گوارا نہیں فرماتا اور فوراً قرآن نازل فرما دیا کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم رات کی عبادت اتنی ہی فرمایا کریں کہ جتنا

طبعیت مبارکہ پر بوجھ نہ بنے ۔ایسا ہی اظہار محبت کا مضمون قرآن مجید کی سورہ مزمل میں بھی ہمیں ملتا ہے ۔ یہ تخصص بلاشبہ اللہ تعالی

نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔


اللہ حکیم و خبیر نے اپنے حبیب مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقامِ قرب و وصل اپنی بارگاہ میں یوں واضح فرما دیا کہ تمہارے

ہاتھوں کے اوپر جو ہاتھ بظاہر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ دیکھ رہے تھے ۔ مگر سنو ! وہ اللہ کا ہاتھ تھا۔

اب عقل پرست ۔ علم پرست ۔۔ اپنے علم و عقل کے گھوڑے دوڑاتے پھریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ ، اللہ کا ہاتھ کیسے ہوگیا

؟ اگر علم و عقل کی وادی میں رہے تو گمراہی مقدر ہوجائے گی ۔ اور معرفت حق کبھی نصیب نہ ہوگی ۔


اگر قرب و عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنا ہے تو محبت و معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بارگاہ الہی

میں التجا کرنا ہوگی۔ دل میں محبت و عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ جلانا ہوگا۔ اور ذکر و ثنائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ

وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا ۔


اور یہ معرفت حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نظر سے دیکھو ۔ جس سے اللہ تعالی اپنے

محبوب کو ہمیں دکھانا چاہتا ہے۔ جس جس شان سے اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ہمیں کرواتا ہے ۔



کبھی شہرِ ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مکہ) کی قسم کھا کر،


لا اقسم بھذالبلد


(القرآن )




کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کی قسم کھا کر


لعمرک


( القرآن)