جب تو نہیں تو پیا ر کی خیرات کیا کریں
آنکھیں جو نم رہیں گی تو برسات کیا کریں
بیٹھے بٹھاے لوگ کیے جاتے ہیں ستم
ان کو نہیں خیال تو ہم بات کیا کریں
گزرا سفر حیا ت کا خدمت کو با نٹتے
اے موت! تو بتا تری خدمات کیا کریں
دن میں تو لوگ دے گے دل کو ہمارے زخم
ٌٌْْڈوبی ھو غم میں رات تو اُس رات کیا کریں
خواہش رہی ھے عمر بھر پل کو سکون ھو
غم کی جو دے رہے ھو وُہ سوغات کیا کریں
ھوتا ھے روبرو بھی تو کرتا نہیں کلا م
ہمد م بتا اس شوخ سے ہم بات کیا کریں