کافی


سچ عرض کرتا ہوں کہ میں کافی کی تُندی اور تیزی سے نہیں گھبراتا ۔
بچپن ہی سے یونانی دواؤں کا عادی رہا ہوں ۔ اور قوتِ برداشت اتنی بڑہ
گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی گولیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ۔
لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری
برداشت سے باہر ہے میری انتہا پسند طبیعت اس میٹھے زہر کی تاب
نہیں لا سکتی ۔ لیکن دقت یہ آن پڑتی ہے کہ میں میزبان کے اصرار کو
عداوت اور وہ میرے انکار کو تکلف پر محمول کرتے ہیں ۔ لہٰزا جب وہ
میرے کپ میں شکر ڈالتے وقت اخلاقاً پوچھتے ہیں :
" ایک چمچ یا دو ؟"
تو مجبوراً یہی گزارش کرتا ہوں کہ میرے لیے شکردان میں کافی کے دو
چمچ ڈال دیجئے ۔

مشتاق احمد یوسفی