سوچا تھا پھلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ھیں
پھر تو سارے ماہ و سال اسی کے ساتھ گزرنے ھیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا،جب یہ قرض اتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا
آج فراغت پاتے ھی ماضی کا دفتر کھولا ھے
تنھائی میں بیٹھ کے اپنا اک اک زخم ٹٹولا ھے
چھان چکا ھوں جسم و جان پر آئی ھوئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ھے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں رکھا تھا اسے یا دل میں کھیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کھاں چھپایا تھا?
ساری عمر کا حاصل تھی یہ کھونے والی چیز نہ تھی
سوچ رھا ھوں یاد تیری گم ھونے والی چیز نہ تھی""
Bookmarks