یہ تو آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ انسان کے اندر ہوتا ہے، چہرے کے تاثرات اسے ظاہر کردیتے ہیں۔ لیکن جذبات سے ہٹ کر،کیا صرف چہرہ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کیا خوبیاں اور خامیاں ہوسکتی ہیں؟حال ہی میں یونیورسٹی آف ہرٹ فورٹ شائر اور گلیسگو یونیورسٹی نے اس حوالے سے ایک تفصیلی مطالعاتی جائزہ لیا جس میں ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ اس جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ خواتین کے چہرہ کا ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتا ہے جس سے ان کی شخیصت کے بارے میں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے جبکہ مردوں کے چہرے ایک بند کتاب کی طرح ہوتے ہیں جن سے ان کی شخصیت کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ جائزہ جریدے نیوسائنٹسٹ میں شائع ہوا ہے۔

اس مطالعاتی جائزے میں شامل رضاکاروں صرف خواتین کے پورٹریٹ دیکھ کر بڑی حد تک یہ درست اندازہ لگانے میں کامیاب رہے کہ آیا وہ خوش قسمت تھیں، مذہبی تھیں یا وہ وہ قابل اعتماد تھیں۔جب کہ اس جائزے سے یہ بھی پتہ چلا کہ مردوں کے چہروں کے مطالعے سے ان کے کردار کے بارے میں عام طور پر کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا۔اس تجرے کا مقصد اس نظریے کو پرکھنا تھا کہ ظاہری شخصیت سے انسان کے باطن کے بارے میں حقائق کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔
سائنس دان اس بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں کہ آیا انسانی شخصیت کی کچھ خصوصیات کا پتا اس کی ظاہری شخصیت سے لگایا جاسکتا ہے یعنی کیا ظاہری شخصیت کچھ شخصی خصوصیات سے منسلک ہوتی ہے؟

مطالعاتی ٹیم نے ایک ہزار افراد کو اپنی تصویریں بھیجنے اور ان سے اپنی شخصیت اور عقائد کے بارے میں ایک تفصیلی سوال نامہ بھرنے کے لیے کہا۔
اس کے بعد ماہرین کی ٹیم نے ان لوگوں کو الگ کرلیا جنہوں نے خود کو اپنے کردار کے چار اہم پہلوؤں کو دوسروں سے نمایاں طورپر مختلف بیان کیا تھا۔ پھر انہوں نے تصویروں کا چہروں کے ساتھ موازنہ کیا۔

تحقیق کے اگلے مرحلے میں انٹرنیٹ کی ایک ویب سائٹ پر ساڑھے چھ ہزار لوگوں سے یہ اندازہ لگانے کے لیے کہا گیا کہ شخصیت کی کونسی خوبی کن چہروں کے ساتھ منسلک دکھائی دیتی ہے۔

جائزے سے ظاہر ہوا کہ لوگ 70 فی صد تک خوش قسمت خواتین کی درست نشان دہی کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسی طرح وہ 73 فی صد تک یہ اندازہ درست طورپر لگانے میں کامیاب ہوئے کہ کون سی خواتین مذہبی تھیں۔

اگرچہ جائزے میں شامل لوگ خواتین کے بارے میں یہ اندازہ لگانے میں کہ، وہ کس حد تک قائل اعتماد تھیں، صرف 54 فی صد تک کامیاب رہے تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ شرح بھی شماریاتی طورپر خاصی زیادہ ہے۔

رضاکار صرف انہی خواتین کے بارے میں چہرہ پڑھ کر درست اندازہ نہیں لگا سکے جنہوں نے ایک کوائف میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ خوش مزاج اور ہنس مکھ شخصیت رکھتی ہیں۔

جریدے نیوسائنٹسٹ میں شائع ہونے والے اس جائزے سے یہ بھی پتہ چلا کہ مردوں کے چہروں سے ان کے حقیقی کردار کے بارے میں زیادہ درست اندازے نہیں لگائے جاسکتے۔

جائزے میں شامل رضاکارکسی بھی مرد کے چہرے کی تصویر دیکھ کر اس کے بارے میں درست اندازہ نہیں لگا سکے۔ وہ تصویریں دیکھ کر خوش قسمت ہونے کے بارے میں صرف 22 فی صد درست اندازہ لگاسکے۔

یونیورسٹی آف ہرٹ فورٹ شائر کے رچرڈ وائز مین اور گلیسگو یونیورسٹی کے راب جینگز نے، جن کی نگرانی میں یہ مطالعاتی جائزہ انجام پایا، کہا ہے کہ ان نتائج کی متعدد وجوہات تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ خواتین کے چہرے مردوں کی نسبت شخصیت کی زیادہ بہتر عکاسی کرتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن مردوں نے اپنی تصویریں بھیجی تھیں، انہوں نے اپنی شخصیت کی درجہ بندی کرتے وقت زیادہ بصیرت سے کام نہیں لیا تھا یا انہوں نے حقائق بتاتے ہوئے نسبتاً کم دیانت داری کا مظاہرہ کیاتھا۔یا پھر شاید خواتین نے اپنی بھیجی جانے والی اپنی تصویروں کے انتخاب میں زیادہ سوچ بچار سے کام لیا تھا۔

اس سے قبل کیے جانے والے جائزوں سے یہ ظاہر ہواتھا کہ جن لوگوں کوجاذب نظر سمجھا جاتا ہے انہیں خوش اخلاق، بااختیار، ذ ہین اور صحت مند سمجھے جانے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق سے یہ بھی سامنے آچکاہے کہ جن لوگوں کے چہرے نسبتاً زیادہ کشادہ ہوتے ہیں وہ عام طورپر جارحیت کی جانب مائل ہوسکتے ہیں اور ان کے اندر مردانہ خصوصیات کے ہارمون کی سطح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ عام طورپر لوگ اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں جیسا کہ وہ دکھائی دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصل میں ویسے نہیں ہوتے جیسا کہ وہ نظر آتے ہیں۔

ایک اور مطالعے سے یہ ظاہر ہواتھا کہ جن لڑکوں کے چہرے بچوں جیسے تھے، وہ بحث مباحثے اور جارحیت کی زیادہ مائل دکھائی دیے اور ان کی تعلیمی کارکردگی بھی نمایاں طورپر بہتر تھی۔