اس وقت جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ
میں نے اس مضمون کے شروع میں قرآن مجید سے آٹھ اسباب بیان کئے ہیں جن کی بنائ پر اس وقت مسلمانوں پر جہاں فرض ہے - آپ کا سوال یہ تھا کہ کیا اس وقت جہاد فرض عین ہوچکاہے؟ اگر ہے تو اس کی دلیل کیا ہے-
اس کے لئے ہمیں پہلے فرض عین اور فرض کفایہ کا مطلب سمجھنا ہوگا- ابن قدامہ فرماتے ہیں-
فَرض± عَینٍ ھ±وَ الفَرض± الَّذِی یَجِب± عَلٰی ک±لِّ م±سلِمٍ اَن یَّفعَلَہ¾ بِنَفسِہ کَالصَّلٰوةِ وَالصَّوم±
فرض عین وہ فرض ہے جو ہر مسلم کو خود کرنا واجب ہے مثلا صلوة وصوم
فَرض± کِفَایَةٍ الَّذِینِ اِذَا قَامَ بِہ مَن یَّکفِی سَقَطَ عَن سَائِرَ النَّاسِ اِِن لَّم یَق¿م بِہ مَن یَّکفِی اَثمَ النَّاسِ ک±لّ±ھ±م فَالخِطَاب± فِی اِبتِدَائِہ یَتنَاوَل± الجَمِیعَ کَفَرضِ الاَعیَانِ ث±مَّ یَختَلِفَانِ فِی اَنَّ فَرضَ الکِفَایَةِ یَسق±ط± بِفِعلِ البَعضِ وَفَرضَ الاَعیَانِ لاَیَسق±ط± عَن اَحَدٍ بِفِعلِ غَیرِہ
[المغنی والشرح الکبیر لابن قدامہ کتاب لاجھاد]
فرض کفایہ وہ ہے جسے اتنے لوگ ادا کردیں جو کافی رہیں تو باقی تمام لوگوں سے ساقط ہوجاتا ہے اور اگر لوگ ادا نہ کریں جو کافی ہوں تو تمام لوگ گناہگار ہوتے ہیں اس کا حکم شروع میں تمام لوگوں کو ہوتا ہے جس طرح فرص عین کا حکم تمام لوگوں کو ہوتا ہے بعض میں دونوں کا فرق یہ ہے کہ فرض کفایہ کچھ لوگوں کے ادا کرنے سے باقی لوگوں سے ساقط ہوجاتا ہے اور فرض عین کسی ایک کے ادا کرنے سے دوسرے سے ساقط نہیں ہوتا-
فقہاءنے فرض کفایہ کی مثال نماز جنازہ بیان کی ہے میت کا جنازہ اور کفن دفن تمام مسلمانوں پر فرض ہے اگر چندآدمی جو یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں ادا کردیں تو باقی مسلمانوں سے فرض ساقط ہوجائے گا لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے یا اتنے لوگ جمع نہ ہوں جو یہ کام سر انجام دینے کےلئے کافی ہوں تو تمام مسلمان فرض ادا کرنہ کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے-
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ جہاد مسلمانوں پر فرض ہے اس کےلئے میں نے شروع میں قرآن مجید سے کئی آیات بیان کی ہیں- جو ا س بات کی دلیل ہے کہ ان آیات میں مذکورہ آٹھ مقاصد حاصل ہونے تک کفار سے لڑتے رہنا فرض ہے-
اب سوال یہ ہے کہ کفار سے جہاد نماز روزہ کی طرح فرض عین ہے کہ ہر ایک مسلمان کو اپنے اپنا فرض ادا کرنا ہوگا یا فرض کفایہ ہے کہ کچھ لوگ یہ فریضہ ادا کردیں تو باقی کی طرف سے بھی ادا ہوجاتا ہے-
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ جہاد فرض عین ہے اور اس کی دلیل وہ تمام آیات ہیں جو اوپر گزر چکی ہیں- چنانچہ تفسیر قرطبی میں ہے وقال سعیدابن المسیب ان الجہاد فرض عین علی کل مسلم فی عینہ ابدا حکاہ الماوردی-
[الجامع لاحکام القرآن لقرطبی 38/3 اور دیکھئے تفسیر طبری 201/2]
ماوردی نے بیان کیا کہ سعیدبن مسیب نے فرمایا جہاد ہر مسلم کی ذات پر ہمیشہ فرض عین ہے-
اور اکثر اہل علم فرماتے ہیں کہ جہاد فرض کفایہ ہے اگر کچھ لوگ یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں تو دوسروں سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے- اس قول کے لئے چند مضبوط دلائل ہیں-
1- اللہ تعالی فرماتے ہیں (توبہ 122)
اور نہیں ہیں مومن کہ سب کے سب نکل پڑیں- تو ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ نکل جاتا ہے تاکہ وہ (میدان جہاد میں) دین کی سمجھ حاصل کرتے اور تاکہ جب وہ واپس آتے تو اپنی قوم کو ڈراتے تاکہ وہ بچ جاتے-
اس سے معلوم ہوا کہ لڑائی کے لئے نکلنا تمام مسلمانوں پر فرض نہیں اگر ایک گروہ نکل پڑے تو سب مسلمانوں کا فرض ادا ہوجا گا-
2- اللہ تعالی نے فرمایا
النسائ 95)
گھروں میں بیٹھ رہنے والے مومن جنہیں کوئی عذر لاحق نہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ لڑنے والے ہیں- دونوں برابر نہیں ہیں- اللہ تعالی نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیاہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے-
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مومن لڑائی کے لئے نہیں نکلے ان سے بھی بھلائی کا وعدہ ہے اگرچہ ان کا درجہ کم ہے اگر جہاد فرض عین ہوتا تو بیٹھ رہنے والوں کے لئے بھلائی کا وعدہ کیسے ہو سکتاہے؟
3- ابوہریرة فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے صلوة قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اسی سرزمین میں بیٹھا رہے جس میں پیدا ہوا ہے- لوگوں نے کہا توکیاہم دوسرے لوگوں کو یہ خوشخبری نہ دیں آپ نے فرمایا یقیناً جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے تیار کیاہے- ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتناآسمان وزمین کے درمیان ہے تو جب تم اللہ تعالی سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا سب سے افضل اور سب سے بلند حصہ ہے اور اس سے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں- [رواہ البخاری - مشکوة کتاب الجہاد]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جہاد کےلئے نہ نکلے اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے اور دوسرے فرض ادا کرتا رہے تو جنتی ہے- اگر جہاد فرض عین ہوتا تو یہ بشارت کیوں ہوتی؟
اگر دونوں اقوال کے دلائل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ دونوں کا محل الگ الگ ہے-
ا سکی تفصیل یہ ہے کہ کفار سے جہاد وقتال ایک وسیع عمل ہے جب تک نظام امارت کے تحت قوم کے تمام طبقات میں شامل نہ ہوں یہ پایہ¿ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اگرچہ اس میں سب سے نمایاں وہ مجاہدین ہوتے ہیں جو میدان جنگ میں دشمن سے برسرپیکار ہوتے ہیں اور یقینا ان کا مرتبہ بھی دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ ہے- مگر یہ سمجھ لینا کہ دشمن سے صرف یہی لڑ رہے ہیں اور دوسرے لوگوں کا اس لڑائی میں کوئی حصہ نہیں درست نہیں- حقیقت یہ ہے کہ دشمن کے سامنے صف آرائ مجاہدین کے لئے اسلحہ تیار کرنا‘ انہیں اسلحہ پہنچانا انہیں خوراک اور دوسری ضروریات بہم پہنچانا ان کے گھروں کی حفاظت اور کفالت کرنا سب لڑائی کے عمل کا حصہ ہے اسی طرح دشمن سے مقابلے کی نیت رکھنا اس مقصد کےلئے ہر وقت تیار رہنا دوسرے کو جہاد پر آمادہ کرنا اسلحہ کی تربیت حاصل کرنا اور لوگوں کو اسلحہ کی تربیت دینا جہاد وقتال کی عمارت کے بنیادی پتھر ہیں- اس سلسلے چند احادیث زیر نظر رہنی چاہئے-
1-زید بن خالد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اللہ کی ر اہ میں کسی لڑنے والے کو سازوسامان کے ساتھ تیار کیا تو اس نے بھی لڑائی کی اور جو کسی لڑنے والے کے گھر والوں میں اس کا نائب بنا یعنی اس کا خیال رکھا تو اس نے بھی لڑائی کی- [متفق علیہ علیہ مشکوة کتاب الجہاد ]
2-ابوسعید فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہذیل کے بنی لحیان کی طرف ایک لشکر بھیجا اور فرمایاکہ ہر دو آدمیوں میں سے ایک نکلے اور اجر دونوں کے درمیان ہوگا- [رواہ مسلم]
3-انس روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین سے اپنے مالوں کے ساتھ اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ جہاد کرو- [رواہ ابودا?د والنسائی والدارمی]
4۔سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخض صدق دل کے ساتھ اللہ تعالی سے شہادت کا سوال کرے اللہ تعالی اسے شہادت کے مرتبہ پر پہنچا دے گا خواہ وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو-[رواہ مسلم مشکوة]
۔ 5ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایاکہ فتح کے بعد ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تم سے نکلنے کے لئے کہاجائے تو نکلو -
[صحیح بخاری وصحیح مسلم]
ان احادیث سے ثابت ہو اکہ اللہ تعالی کی راہ میں کسی لڑنے والے کو تیار کرنے والا بھی لڑنے میں شریک ہے- ا سکے اہل وعیال کی حفاظت وخبرگیری رکھنے والابھی لڑ رہاہے- دو بھائیوں میں ایک کو بھیج کر اس کے کام سنبھالنے والا دوسرا ساتھی بھی اس کے ساتھ شریک ہے-
مشرکین سے لڑائی مال جان اور زبان تینوں کے ساتھ ہوتی ہے- لڑائی اور شہادت کی سچی نیت سے بھی آدمی لڑائی میں شرکت او رشہادت کی سعادت حاصل کر سکتا ہے-
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد سے مراد اگر نفیر یعنی دشمن کے مقابلے کے لئے نکلنا ہوتو یہ اس وقت فرض عین ہے جب امیر نکلنے کا حکم دے دے ایسی صورت میں صرف وہ شخص رہ سکتاہے جسے خود امیرپیچھے رہنے کا حکم دے اور وہ بھی جہا دمیں شریک سمجھا جائے گا اس کے علاوہ ہر صاحب استطاعت کو نکلناہوگا جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر سب کو نکلنے کا حکم دیا تھا مگر خود ہی چند افراد کو مدینہ کے انتظام کے لئے مقرر فرمایا تھا- جو مومن ستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ان پر اللہ تعالی نے سخت گرفت فرمائی تھی- اگر امیر تمام لوگوں کو یا کسی خاص آدمی کو نکلنے کا حکم نہ دے تو یہ فرض کفایہ ہے- کیونکہ عام حالات میں ہر ایک مسلمان تو کا جا ہی نہیں سکتا اور نہ ہی لڑائی کی حکمت ہرمسلمان کے نکلنے کا تقاضا کرتی ہے آخر مسلمانوں کے شہرون اور ان کے گھروں کی حفاظت کے انتظام کے بغیر دشمن سے لڑائی کس طرح جار یرکھی جا سکتی ہے- اگر اتنے لوگ میدان میں موجود ہیں جو دشمن کے لئے کافی ہیں تو دوسرے لوگوں پر میدان میںنکلنا ضروری نہیں ہاں اس کے باوجود کوئی میدان میں نکلے تو ان سو درجوں کا حق دار ہوگا جو اللہ تعالی سے لڑائی کے لئے نکلنے والوں کے لئے رکھے ہیں-
لیکن اگر جہاد سے مراد ہو لڑائی کی نیت رکھنا‘ اس کی تربیت حاصل کرنا‘ جس قدر ہو سکے اسلحہ اور سازوسامان تیار رکھنا‘ مجاہدین کو لڑائی کے لئے تیار کرنا‘ ان کے گھروں اور اہل وعیال کی حفاظت اور خبر گیری رکھنا- غرض کسی نہ کسی طرح لڑائی میںشرکت کرنا تو یہ جہاد ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور اس سے گریزنفاق ہے- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی یہی معاملہ ہے- ابوسعید خدری راوی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اسے ہاتھ سے بدل دے اور یہ طاقت نہ رکھتاہو تو زبان کے ساتھ اور اگریہ طاقت بھی نہ ہو تو دل کے ساتھ اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے- [رواہ مسلم مشکوة باب الامر بالمعروف]
علمائے کرام نے نہ عن المنکر کو فرض کفایہ قرار دیاہے کہ اگر کچھ لوگ کسی برائی سے روک دیں تو سب کا فرض ادا ہوگیا مگر ایک دوسرے کو برائی سے روکنے کی تلقین کرتے رہنا اور کم از کم دل میں روکنے کی نیت رکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے کیونکہ اگر یہ بھی نہ ہو تو ایمان کی رتی بھی نہیں رہتی اس طرح کفار سے جہاد میں کسی نہ کسی صورت میں شرکت ہر مسلمان پر فرض ہے اور اگر کوئی شخض کفار سے لڑنے کی نیت اور ارادہ بھی نہیں رکھتا تو اس کا ایمان منافقت سے خالی نہیں-
ابوامامہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے جنگ نہیں کی نہ کسی لڑنے والے کی تیاری کروائی اور نہ کسی جنگ کرنے والے کے گھر میں ا س کا اچھائی کے ساتھ نائب بنا (یعنی اچھی طرح سے ان کا خیال رکھا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سے پہلے پہلے اسے کوئی نہ کوئی زبردست مصیبت پہنچائے گا- [ابوداود]
ابوھریرة فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجو شخص اس حال میںفوت ہوگیا کہ نہ اس نے جنگ کی اور نہ ہی اپنے دل سے جنگ کی بات کی تو یہ شخص منافقت کی ایک شاخ پر فوت ہوا- [صحیح مسلم]
(جاری ہے)
Bookmarks