سانحۂ کربلا
سانحۂ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں شیعہ عقائد کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
اسباب
یزید کی نامزدگی اور شخصی حکومت کا قیام
[color="rgb(139, 0, 0)"]اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ سے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں ۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دور دیکھا تھا ۔ لٰہذا ان کے لیے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا ۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔[/color]
یزید کا ذاتی کردار
[color="rgb(139, 0, 0)"]یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لٰہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا
[/color]
بیعت پر اصرار
[color="rgb(139, 0, 0)"]یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لۓ روانہ ہؤے
[/color]
اہل کوفہ کی دعوت
[color="rgb(139, 0, 0)"]جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا۔[/color]
[color="rgb(160, 82, 45)"]واقعات
[/color]
مکہ روانگی
[color="rgb(139, 0, 0)"]ولید بن عتبہ نے امام حسین اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا ۔ ابھی تک امیر معاویہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی ۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا ۔امام حسین سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے 80;واب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا ۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی ۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا ۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ لٰہذا وہ27 رجب60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔[/color]
مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
[color="rgb(139, 0, 0)"]امام حسین نے کوفیوں کے خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم کوفہ پہنچے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین کو کوفہ آنے کا لکھا۔[/color]
ابن زیاد کوفہ میں
[color="rgb(139, 0, 0)"]ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو م593;زول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی ۔ اس وقت مسلم ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے ۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انھیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی[/color]
مسلم کی گرفتاری اور شہادت
[color="rgb(139, 0, 0)"]شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے ۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رئیسان کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔آخر کام مسلم کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے ۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی ۔ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہوگئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا ۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘ ۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین کی طرف روانہ کر دیا۔
[/color]
Bookmarks