سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرنا چاہونگا کے کہ میں آپ لوگوں سے
ناراض ہوں جو آپ لوگوں نے مشاعرے کا انعقاد کیا اور مجھے مدعو نہیں کیا
خیر کوئی گل نہیں ہم بنا دعوت کے ہی آگئے اور ہم یہاں انٹری ایک غزل سے
کرینگے اور غزل ہے ہمارے فیورٹ شاعر میر تقی میر کی.امید ہے آپ لوگوں
کو پسند آئے گی.بھائی مجھے تو بہت پسند ہیں آپ لوگوں کی رائے تو
بعد میں پتا چلینگے.....شکریہ
فقیرانہ آئے صدا کرچلے
میاں ، خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے
by, mir taki mir
Bookmarks