قادیانیت کا مکروہ چہرہ!
کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب
سوال: ۹- ”حضرت محمد نے خود نوشادیاں کیں اور باقی مسلمانوں کو چار پر قناعت کرنے کا حکم دیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟“
جواب: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تعدد ازواج کے مسئلہ پر عموماً یورپ کے مستشرقین اپنے تعصب، نادانی اور جہل مرکب کی وجہ سے اعتراض کیا کرتے ہیں، بلاشبہ قادیانیوں نے بھی ان سے مرعوب ہوکر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے اعتراض کو اپنے الفاظ میں نقل کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے،اگر قادیانیوں کااسلام اور پیغمبراسلام سے ذرہ بھر عقیدت کا تعلق ہوتا تو وہ ایسی دریدہ دہنی نہ کرتے، کیونکہ جس کو کسی سے محبت و عقیدت ہوتی ہے، اس کے بارہ میں وہ کسی اعتراض کے سننے کا روادار نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کے اخلاق سوز کردار پر بات کی جائے تو وہ اس کے سننے کے روادار نہیں ہوتے اوراگر بالفرض ان کومرزا جی کی کتب سے ایسے حقائق کے حوالے دکھائے جائیں تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ حوالہ چیک کرنے کے بعد بات کریں گے۔
بہرحال قادیانیوں کے اشکال کہ: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے لئے چار سے زائد شادیاں اور نکاح کیونکر جائز تھے؟ کے سلسلہ میں عرض ہے کہ:
الف: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اپنی سطح پر رکھ کر نہیں سوچنا چاہئے کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے امتیازی اوصاف و خصوصیات سے نوازا تھا، اگر آج کفار و مستشرقین کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی شادیوں پر اعتراض ہے، تو ان کے آباؤاجداد اور مشرکین مکہ کو آپ صلى الله عليه وسلم کی بشریت، نبوت، معراج اور غیرمعمولی کمالات پر بھی اعتراض تھا، لہٰذا ہمارے خیال میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی شادیوں پر اعتراض کرنے والے بھی دراصل آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات، صفات اورکمالات کے منکر ہیں، مگر براہ راست اس کا اظہار کرنے کی بجائے یورپی مستشرقین کی زبان میں عقلی احتمالات پیش کرکے اپنی معصومیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
ب: جہاں تک آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی چار سے زائد شادیوں کے جواز کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید -رحمه الله- نے نہایت عمدہ جواب لکھا ہے اور ممکنہ اشکالات کو خوبصورتی سے حل فرمایاہے، لہٰذا اس عنوان پر اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت شہید -رحمه الله- ہی کا جواب نقل کردیا جائے، جو درج ذیل ہے:
”الغرض نکاح کے معاملہ میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی بہت سی خصوصیات تھیں اور بیک وقت چار سے زائد بیویوں کا جمع کرنا بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی انہی خصوصیات میں شامل ہے، جس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے۔
حافظ سیوطی -رحمه الله- ”خصائص کبریٰ“ میں لکھتے ہیں کہ: ”شریعت میں غلام کو صرف دو شادیوں کی اجازت ہے اوراس کے مقابلے میں آزاد آدمی کو چار شادیوں کی اجازت ہے، جب آزاد کو بمقابلہ غلام کے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے، تو پھر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو عام افرادِ امت سے زیادہ شادیوں کی کیوں اجازت نہ ہوتی۔“
متعدد انبیاء کرام علیہم السلام ایسے ہوئے ہیں جن کی چار سے زیادہ شادیاں تھیں، چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی سوبیویاں تھیں اور صحیح بخاری (ص:۳۹۵، ج:۱) میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سو یا ننانوے بیویاں تھیں۔ بعض روایات میں کم و بیش تعداد بھی آئی ہے۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر -رحمه الله- نے ان روایات میں تطبیق کی ہے اور وہب بن منبہ کا قول نقل کیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہاں تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں۔(فتح الباری ص:۳۶۰)
بائبل میں اس کے برعکس یہ ذکر کیاگیا ہے کہ : سلیمان –عليه السلام- کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (۱-سلاطین:۱۱-۳)
ظاہر ہے کہ یہ حضرات ان تمام بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہوں گے، اس لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا نو ازواج مطہرات کے حقوق ادا کرنا ذرا بھی محل تعجب نہیں۔
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خصوصیات کے بارے میں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو چالیس جنتی مردوں کی طاقت عطا کی گئی تھی اور ہرجنتی کو سو آدمیوں کی طاقت عطا کی جائے گی ... اس حساب سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم میں چار ہزار مردوں کی طاقت تھی۔ (فتح الباری ص:۳۷۸)
جب امت کے ہر مریل سے مریل آدمی کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے لئے، جن میں چارہزار پہلوانوں کی طاقت و دیعت کی گئی تھی، کم از کم سولہ ہزار شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے تھی۔
اس مسئلہ پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے کہ ایک داعی اپنی دعوت مردوں کے حلقہ میں بلاتکلف پھیلاسکتا ہے، لیکن خواتین کے حلقہ میں براہ راست دعوت نہیں پھیلاسکتا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا یہ انتظام فرمایا ہے کہ ہر شخص کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے، جو جدید اصطلاح میں اس کی پرائیویٹ سیکریٹری کا کام دے سکیں اور خواتین کے حلقہ میں اس کی دعوت کو پھیلاسکیں... جب ایک امتی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ انتظام فرمایا ہے، تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم جو قیامت تک تمام انسانیت کے نبی اور ہادی ومرشد تھے، قیامت تک پوری انسانیت کی سعادت جن کے قدموں سے وابستہ کردی گئی تھی، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت و رحمت سے امت کی خواتین کی اصلاح و تربیت کے لئے خصوصی انتظام فرمایا ہو تواس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ حکمت و ہدایت کا یہی تقاضا تھا۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی کتاب ہدایت تھی، آپ کی جلوت کے افعال و اقوال کونقل کرنے والے توہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین موجود تھے، لیکن آپ کی خلوت و تنہائی کے حالات امہات المومنین کے سوا اور کون نقل کرسکتا تھا؟ حق تعالیٰ شانہ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے ان خفی اورپوشیدہ گوشوں کو نقل کرنے کے لئے متعدد ازواج مطہرات کا انتظام فرمادیا، جن کی بدولت سیرت طیبہ کے خفی سے خفی گوشے بھی امت کے سامنے آگئے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب بن گئی، جس کو ہر شخص ہروقت ملاحظہ کرسکتا ہے۔
اگر غور کیا جائے توکثرتِ ازواج اس لحاظ سے بھی معجزئہ نبوت ہے کہ مختلف مزاج اور مختلف قبائل کی متعدد خواتین آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی سے نجی زندگی کا شب و روز مشاہدہ کرتی ہیں اور وہ بیک زبان آپ صلى الله عليه وسلم کے تقدس و طہارت، آپ صلى الله عليه وسلم کی خشیت و تقویٰ، آپ صلى الله عليه وسلم کے خلوص و للہیت اور آپ صلى الله عليه وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و اعمال کی شہادت دیتی ہیں، اگر خدانخواستہ آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی میں کوئی معمولی سا جھول اور کوئی ذرا سی بھی کجی ہوتی تو اتنی کثیر تعداد ازواج مطہرات –رضي الله عنهن- کی موجودگی میں وہ کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکتی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی کی پاکیزگی کی یہ ایسی شہادت ہے جو بجائے خود دلیل صداقت اور معجزئہ نبوت ہے... یہاں بطور نمونہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ –رضي الله عنها- کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں، جس سے نجی زندگی میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تقدس و طہارت اور پاکیزگی کا کچھ اندازہ ہوسکے گا، وہ فرماتی ہیں:
”میں نے کبھی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا ستر نہیں دیکھا اور نہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے کبھی میرا ستر دیکھا۔“
کیا دنیا میں کوئی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ شہادت دے سکتی ہے کہ مدة العمر انھوں نے ایک دوسرے کا ستر نہیں دیکھا اور کیا اس اعلیٰ ترین اخلاق اور شرم و حیا کا نبی کی ذات کے سوا کوئی نمونہ مل سکتا ہے؟
غور کیجئے! کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی کے ان ”خفی محاسن“ کو ازواج مطہرات –رضي الله عنهن- کے سوا کون نقل کرسکتا ہے؟“ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ص:۲۷۶، ج:۹)
Bookmarks