شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی
وہ کبھی راہ میں روکےہم وہاں پربسالیں گےخود کو تو سہی
وہ قیامت ہو کہ ستارہ ہو کہ دل ہو
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی
دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی
اُس کی نفرت میں بھی محبت ہوگی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی
اس کے قدموں میں بچھادوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی
میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کوئی دیکھے تو سہی
اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے وہ بولے تو سہی
محسن نقوی
Bookmarks