Page 1 of 3 123 LastLast
Results 1 to 12 of 30

Thread: شرک کی تباہ کاری

  1. #1
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Arrow شرک و بدعات کی تباہ کاری

    شرک ناقابل معافی جرم ہے جس کا قرآن و حدیث میں بے شمار بار ذکر موجود ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج شرک کرنے والے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار لیکن توحید والے گستاخ رسول اور اولیاء کے منکر قرار پاتے ہیں۔

    خرد کا نام جنون، جنون کا خرد رکھ دیا
    جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے

    آج کے حالات کی بھر پور عکاسی مولانا حالی رحمہ اللہ کے ان الفاظ میں کی ہیں:

    کرے گر غیر بت کی پوجا تو کافر
    جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر
    کہے آگ کو اپنہ قبلہ تو کافر
    کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
    مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
    پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
    نبی کو جو چاہیں* خدا کر دکھائیں
    اماموں کا رتبہ نبی سے بڑہائیں
    مزاروں پہ دن رات نذریں چڑہائیں
    شہیدوں سے جا جا کے مانگے دعائیں
    نہ توحید میں* کچھ خلل اس سے آئے
    نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
    وہ دین جس سے توحید پھیلی جہاں میں
    ہوا جلوہ گر حق زمیں و زماں میں
    رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں
    وہ بدل گیا آکے ہندوستان میں
    ہمیشہ سے اسلام تھا جس پر نازاں
    وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلمان


    شرک ایک نا قابل معافی گناہ ہے۔ اللہ تعالی' شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ باقی گناہوں کو چاہے تو ویسے ہی معاف کر دے اور اگر چاہے تو سزا دے کر جہنم سے آزاد کر دے۔ یہ اللہ پاک کی مرضی پہ منحصر ہے۔

    سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھ کو یہ خوش خبری دی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ تعالی' کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھراتا وہ جنت میں* داخل ہو گا(سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہے) میں نے کہا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو (رواہ مسلم کتاب الایمان)

    شرک انتہائی ناقص عقیدہ ہیں۔ کیوں کے انسان جس غیر اللہ کو پکارتا ہے وہ نہ تو اس کی دعا قبول کر سکتا ہے اور نہ اسے اس کی کوئی خبر ہوتی ہے کے کوئی اسے پکار رہا ہے۔ اللہ رب العزت سورہ الاحقاف آیت 5 میں فرماتا ہے: ” اس سے بڑھ کے اور کون گمراہ ہو گا ۔جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کر سکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بےخبر ہو“

    کچھ اہم نکات:
    1۔ اللہ تعالی' ہی خالق و رازق ہے دیکھیے سورا الذاریات آیت 58
    2۔ اللہ تعالی' کسی کا محتاج نہیں سب اس کے محتاج ہے، اللہ تعالی' بے نیاز ہے دیکھیے سورہ العنکبوت:6، سورا فاطر:15، سورہ الزمر:65، سورہ اخلاص:2
    3۔ مدد صرف اللہ تعالی' سے مانگو کیونکہ اللہ تعالی' ہی مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر ہے اور ہر چیز پہ قدرت رکھتا ہے دیکھیے سورہ الفاتحہ:4، سورہ اعراف:23، سورہ آل عمران:128
    4۔ اللہ تعالی' ہی عالم الغیب ہے اللہ تعالی' کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں یہاں تک کے کوئی نبی بھی نہیں دیکھیے سورہ الانعام:50، سورہ الاعراف:188، سورہ النمل:65
    5۔ اللہ تعالی' ہی موت و حیات کا مالک ہے دیکھیے سورہ النجم:44، سورہ لقمان:34
    6۔ اللہ تعالی' ہی دلوں کے حال جانتا ہے دیکھیے سورہ آل عمران:29
    7۔ غوث اعظم، داتا، گنج بخش، غریب نواز، دستگیر اللہ تعالی' ہی ہے دیکھیے سورہ النمل:62، سورہ الشوری':50، سورہ الرحمن:29، سورہ الانعام:17، سورہ یونس:62

    اللہ تعالی' ہمیں خالص توحید پہ عمل کی توفیق دیں اور صحیح العقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ میں ان شاءاللہ اس موضوع پہ اور بھی تفصیل پیش کروں گا اللہ عمل کی توفیق دیں۔ آمین


    والسلام علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
    موسی' خان

    بشکریہ

    محمد عاکف سعید
    Last edited by mosakhan; 6th August 2010 at 12:27 AM.

  2. #2
    Fahim Shah's Avatar
    Fahim Shah is offline Senior Member+
    Last Online
    17th December 2012 @ 09:13 PM
    Join Date
    14 Oct 2009
    Location
    karachi
    Gender
    Male
    Posts
    825
    Threads
    115
    Credits
    935
    Thanked
    226

    Default



  3. #3
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    جزاک اللہ خیرا بھاءی
    افسوس جس چیز پر ہم کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے اس کو ہم نے چھوڑ دیا اور من گھڑت واقعات کے ساتھ دل لگا لیا ۔۔۔
    اللہ کے نبی ﷺ ساری زندگی جس توحید کی دعوت دیتے رہے اور اس کے لیے بہت سی تکالیف بھی اٹھاءی ہم نے وہ اصل دعوت کا کام چھوڑ دیا اور بدعات اور شرک کے گھڑے میں جا گرے اللہ ہم کو توحید کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماءے۔۔آمین
    سیگنچر میں آئی ٹی دنیا کے لنک علاوہ کسی اور ویب سائٹ کے لنک کی اجازت نہیں
    شکریہ
    آئی ٹی دنیا ٹیم

  4. #4
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Default

    Quote ALLAH'S SLAVE said: View Post
    جزاک اللہ خیرا بھاءی
    افسوس جس چیز پر ہم کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے اس کو ہم نے چھوڑ دیا اور من گھڑت واقعات کے ساتھ دل لگا لیا ۔۔۔
    اللہ کے نبی ﷺ ساری زندگی جس توحید کی دعوت دیتے رہے اور اس کے لیے بہت سی تکالیف بھی اٹھاءی ہم نے وہ اصل دعوت کا کام چھوڑ دیا اور بدعات اور شرک کے گھڑے میں جا گرے اللہ ہم کو توحید کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماءے۔۔آمین
    Durust farmaya bhai Allah ap ko behtreen jaza ata farmae Ameen

  5. #5
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Arrow

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    الحمد اللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین

    تمام تعریفیں اس اللہ رب العزت کیلیے ہیںجو تمام جہانوں کا رب ہےوہی سب کا داتا، وہی حاجت روا، وہی مشکل کشا وہی گنج بخش ہے۔ تمام کائینات کا اکیلا مالک ہے اور اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔
    لاکھوں کڑوڑوں درود و سلام سید المرسلین خاتم النبین امام اعظم امام انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے بے شمار تکلیفیں برداشت کر کے یہ دین ہم لوگوں تک پہنچایا اللہ تعالی' نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اسلام کو کامل کر دیا۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہمیں شرک و بدعت اور برے کاموں سے بچنے کی تلقین فرمائیں وہاں ہمیں غلو(درجے سے بڑھا دینا) سے بچنے کی بھی تلقین فرمائیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! مجھے اتنا نا چڑھا دینا یعنی میری تریف میں اتنا مبالغہ نہ کرناجتنا نصاری' نے عیسی' ابن مریم کے بارے میں کیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں دیکھیے صحیح البخاری جلد دوئم ص-252 ح-665

    پر افسوس اسی غلو سے کام لیتے ہوئے اکثر حضرات نے نبیوں، ولیوں اور اماموں کا رتبہ حد سے تجاور کر دیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی مخالفت کی۔ غلو میں مختلف عقائد لوگوں نے گھڑ لیے جس میں سے ایک عقیدہ جس پہ ابھی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں وہ ہے علم غیب۔
    غلو میں ایک عقیدہ یہ شامل ہیں کہ نبی اور ولی، بزرگان دین وغیرہ عالم غیب تھے جو کہ بلکل باطل عقیدہ ہے آئیے ہم دیکھتے ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث کی کیا تعلیمات ہے۔

    عالم الغیب میں دو الفاظاستعمال ہوئے ہیں پہلا عالم اور دوسرا غیب، عالم کہتے ہیں جاننے والے کو اور غیب چھپی ہوئی چیزاور وہ چیز جو آئندہ ہونے والی ہو کو کہتے ہے۔
    اس بات سے کسی کو اختلاف نہ ہو گا۔ اب اگر یہ صفت مخلوق میں تلاش کی جائے تو یہ ناممکن ہے۔ کوئی شخص ایسا نہی جو بنا کسی کے بتائے یا کسی کے خبر دیے بغیر سب کچھ جان لے۔ نہ وہ یہ دعوہ کر سکتا ہے کہ اس سے کچھ نہیں چپھا ہوا اور جو اس بات کا دعوہ کرے وہ جھوٹا ہے۔ آئیے اب قرآن کھولتے ہے اور اس مسئلے کو تفصیل سے سمجھتے ہے:

    اللہ تعالی' قرآن میں فرماتا ہے: ”اور اللہ تعالی' کیلیے ہی ہے غیب آسمانوں کا اور زمین کا اورتمام معملات اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سو اسی کی عبادت کرو اور بھروسہ رکھو“ سورہ ھود آیت 122

    ایک اور جگہ فرمان ہیں: ”(اے نبی) ان سے کہو کہ نہیں جانتا کوئی بھی جو بھی ہے آسمانوں میں اور زمین میں، غیب کو سوائے اللہ کے اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائے گے“ سورہ النمل آیت 65

    ایک اور جگہ: ” اور وہی اللہ ہے نہیں ہے اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق، اور وہ غیب و حاظر کو جانتا ہے برا مہربان نہایت رحم والا ہے“ سورہ الحشر آیت 22

    مزید دیکھیے سورہ النحل آیت 77 اور سورہ الانعام آیت 59

    آئیے اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو پڑھتے ہیں:

    عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیب کی 5 کنجیاں ہے جنہیں اللہ تعالی' کے سوا کوئی نہیں جانتا:
    1۔ عورت کے پیٹ میں کیا ہے۔
    2۔ کل کیا ہو گا۔
    3۔ بارش کب ہو گی۔
    4۔ جاندار کس سرزمین پہ مرے گا۔
    5۔ قیامت کب آئی گی۔
    (صحیح البخاری جلد سوم/ص-762 ح-2216 )

    سیدہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کے جو شخص یہ کہے کہ اللہ کے رسول غیب جانتے تھے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ تعالی' کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا۔
    (صحیح البخاری جلد سوئم ص-962 ح-2215 )

    جیسا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہے کہ غیب اللہ تعالی' کے سوا کوئی نہیں جانتا ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے چاہیے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات پہ عمل کرے اور اپنے عقیدے کی درستگی کرے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمیں امام اعظم خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم بے چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ آمین

    والسلام علیکم ورحمتہ اللہ

    محمد عاکف سعید

  6. #6
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Thumbs up مسئلہ وسیلہ

    وسیلہ کے غلط تصور سے عقیدہ توحید میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے- جو لوگ وسیلہ کے مسئلے پر ٹھوکر کھائے ہوئے ہیں، وہ اپنی دعائوں اور حاجات کو بلا جھجھک غیر اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے وسیلے سے نجات کے طلب گار ہوتے ہیں- وسیلے کے مفھوم پر غور کیا جائے تو اس کی دو اقسام معلوم ہوتی ہیں-
    1/ شرعی وسیلہ جو کتاب و سنت پر مشمل ہے-
    2/ غیر شرعی وسیلہ جو انسان کو شرک کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتا ہے-
    وسیلے کا لغوی معنی قرب جاصل کرنا ہے- شریعت میں وسیلہ کا مطلب ہے کہ جس چيز کے ذریعے مطلوب کا قرب حاصل کیا جائے یعنی وسیلہ ایک واسطہ اور سبب ہے- قرآن و سنت میں شرعی وسیلے کی جن انواع کا پتہ چلتا ہے، وہ تین ہیں-

    اسماء الحسنی اور صفات الہیہ کا وسیلہ:

    جب کبھی انسان کوئی دعا کرے تو اللہ تعالی کی صفات اور اس کے پاکیزہ ناموں کا واسطہ دے کر اس سے سوال کرے- جیسے کوئی انسان اللہ کی رحمت کا امیدوار ہو تو اس کی صفت الرحمن الرحیم کے واسطے سے دعا کرے- کوئی بیمار ہو تو اس کی صفت الشافی کے وسیلے سے دعا کرے جیسا حدیث شریف میں آتا ہے:

    " اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی۔۔۔۔۔۔۔"
    ( بخاری، کتاب المرضی، باب دعاء العائد لمریض، حدیث: 5675)

    اسی طرح:

    " یا حی یا قیوم برحمتک استغیث"
    ( سنن ترمذی، کتاب الدعوات، باب 91، حدیث: 3524)

    اس طرح اسم اعظم کے وسیلے سے دعا کرنا جیسے:

    " الم، اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، والھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم"
    (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب دعاء، حدیث: 1496)

    قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے کہ:

    " وللہ الاسماءالحسنی فادعوہ بھا" الاعراف:180
    ( یعنی اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں- اس لیے اس کو ان کے ساتھ پکارو)

    دعائوں میں نیک اعمال کا واسطہ دینا:

    جب کوئی شخص اپنی دعا میں اللہ رب العزت کو اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کہ اے اللہ! فلاں وقت میں نے نیکی کا فلاں کام کیا تھا- تو اس کو جانتا ہے- میں التجا کرتا ہوں کہ میرا یہ مسئلہ حل فرمادے- اس کی دلیل وہ مشھور و معروف قصہ ہے جو صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ:
    " جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے- ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی کے بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹادے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا- دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا- تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا- لہذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی-
    ( بخاری، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465)

    یہ حدیث شریف اس بات پر دلالت کرتی ہے دعا کرتے ہوئے اپنے نیک اعمال اللہ تعالی کی بارگاھ میں پیش کیے جاسکتے ہیں- ان کے وسیلے سے دعا بھی ہوسکتی ہے اور یہ زیادہ مستحب ہے-

    کسی نیک انسان کو دعا کے لیے کہنا:

    جائز وسیلے کی یہ تیسری صورت ہے-
    انس رض فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد نبوی میں داخل ہوا- نبی کریم ۖ منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے- اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہوگئے- راستے ختم ہوگئے- آپ اللہ تعالی سے بارش کی دعا فرمائيں- نبی پاک ۖ نے اس کی بات سنی تو اپنے دونوں ہاتھ فصا میں بلند کیے اور دعا مانگنے لگے- انس رض فرماتے ہیں (آپ کے ہاتھ اتنے اٹھے ہوئےتھے کہ) میں نے آپ ۖ کی بغلوں کی سفیدی بھی دیکھی- آپ ۖ نے یہ دعا مانگی:
    " اللہم اغثنا اللہم اغثنا اللہم اغثنا"
    لوگوں نے بھی آپ ۖ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی- انس رض فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم نے آسمان پر کسی قسم کا کوئی بادل نہیں دیکھے، ہمارے درمیان اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر نہیں تھا- اسی وقت سلع کی پچھلی جانب سے ایک ڈھال کی طرح بادل کا چھوٹا سا ٹکڑا نمودار ہوا- جب وہ آسمان کے درمیان تک آیا تو ہمارے سروں پر پھیل گیا اور برسنے لگا- اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ۖ نے ابھی دعا کرکے ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ بادل پہاڑوں کی طرح پھیل چکے تھے- ابھی آپ منبر سے نیچے تشریف نہیں لائے تھے کہ آپ کی داڑھی مبارک سے بارش کے قطرے ٹپک رہے تھے- پھر ہم نے نماز پڑھی- فارغ ہوکر مسجد سے نکلے اور پانی میں چلنے لگے- یہاں تک کہ گھروں تک پہنچ گئے- دوسرے جمعہ تک سارے ہفتے مسلسل بارش ہوتی رہی- پھر وہی اعرابی یا کوئی اور ايا- اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسولۖ! آپ اللہ تعالی سے دعا مانگيں کہ بارش روک لے-
    نبی کریم ۖ نے اس کی بات سنی تو مسکرا اٹھے اور دونوں ہاتھ دعا کے لیے بلند کیے- اور ارشاد فرمایا-
    " اللہم حوالینا ولا علینا"
    ( اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر نہ برسا)
    اّ پ ۖ کے یہ دعا مانگنے کی دیر تھی کہ بادل چھٹ گئے اور آسمان نظر آنے لگا- پھر مدینہ کے اردگرد بارش ہونے لگی اور مدینہ میں بارش کا ایک قطرہ بھی نہ گرا-
    ( بخاری، کتاب الاستسقاء، باب الاستسقاء فی خطبہ الجمعۃ، حدیث: 1014)

    حضرت عمر بن خطاب رض کا یہ واقعہ بھی کتب حدیث میں آتا ہے-
    "انس رض فرماتے ہیں کہ جب کبھی عمر رض کے زمانے میں قحط پڑتا تو وہ عباس بن عبدالمطلب رض سے بارش کی دعا کے لیے کہتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی ۖ کا وسیلہ لایا کرتے تھے، تو تو پانی برساتا تھا- اب ہم اپنے نبی ۖ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں- اس لیے تو ہم پر پانی برسا- انس رض کہتے ہیں پھر بارش خوب برستی"
    (بخاری، کتاب الاستسقاء، باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، حدیث: 1010)

    حضرت عمر فاروق رض کے کس طرز عمل سے عقیدے کے کتنے ہی مسائل حل ہوتے ہیں- شرط صرف یہ ہے کہ دل کی آنکھیں کھول کر حدیث شریف پڑھی جائے اور اس پر غور کیا جائے-
    حضرت عمر رض فرماتے ہیں کہ پہلے ہم تیرے اپنے نبی ۖ کا وسیلہ لایا کرتے تھے اب۔۔۔۔۔۔۔اب کیا ہوا؟ لوگوں کا تو عقیدہ ہے کہ نبی پاک ۖ اپنی قبر میں نہیں بلکہ حاضر ناظر ہیں- ہر جگہ موجود ہیں- ان کی موجودگی میں عباس رض سے دعا کرانے کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حضرت عمر رض اور دیگر اصحاب رسول کا عقیدہ تھا کہ نبی کریم ۖ حاضر ناظر نہیں اور نہ ہی وہ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں- ورنہ حضرت عمر کی مجال نہ تھی کہ وہ نبی پاک ۖ کے ہوتے ہوئے ان کے چچا کو دعا کے لیے کہتے-
    آج بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ۖ فوت نہیں ہوئے- وہ زندہ ہیں- ان کی زندگی اسی طرح ہے جس طرح۔۔۔۔۔۔۔بھئی جب فوت ہی نہیں ہوئے تو پھر یہ کہنے کیا ضرورت ہے کہ ان کی زندگی اس طرح ہے؟
    ذرا ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ جب نبی پاکۖ فوت نہیں ہوئے گویا وہ زندہ ہیں تو ان کی موجودگی میں عباس رض سے دعا کا کہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیسی عجیب بات ہے- اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو شخص عباس رض کو دعا کے لیے کہ رہا ہے وہ نبی ۖ کو زندہ نہیں سمجھ رہا بلکہ وہ انہیں فوت شدہ سمجھ رہا ہے- تبھی تو وہ کہ رہا ہے کہ اے اللہ! پہلے تیرے پاس اپنے نبی ۖ کا وسیلہ لایا کرتے تھے- اب وہ زندہ نہیں رہے تو ان کے چچا کو دعا کے لیے وسیلہ بناتے ہیں- اگر عمر رض کا عقیدہ کا عقیدہ یہی ہوتا کہ نبی ۖ فوت نہیں ہوئے، زندہ ہیں تو وہ کبھی عباس رض کے پاس دعا کے لیے نہ آتے- بلکہ قبر نبوی کا رخ بھی نہ کرتے بلکہ یوں دعا کرتے:
    " اے اللہ! ہم نہیں دیکھ رہے تو اپنے نبی کو دیکھ رہا ہے- وہ ہم میں موجود ہیں، حاضر ناظر ہیں، ہم ان کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں"-

    آج جو لوگ اپنی دعاؤں میں مسلسل کہتے ہیں کہ اے اللہ! نبی کے وسیلہ سے، نبی کے طفیل، نبی کے واسطے، نبی کے صدقے ہماری دعا قبول فرما- ہماری فریاد پوری فرما- لیکن ہمیں نبی کریمۖ کے صحابہ اور تابعین کرام کی دعائوں میں یہ طریقہ بالکل نہیں ملتا- اس لیے کہ وہ عقیدہ کے کھرے تھے- ان کے عقیدے میں کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نہیں تھی- اگر نبی کریم ۖ کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو عمر فاروق رض کے لیے کیا رکاوٹ تھی کہ انہوں نے نبی ۖ کے وسیلے سے دعا نہ مانگی اور حضور ۖ کے چچا کو لے آئے- انہیں صرف اتنا ہی تو کہنا تھا کہ اے اللہ! اپنے نبی کے طفیل ہم پر بارش برسا- امیر المومنین نے اتنا تردد کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ عمر بن خطاب رض تھے کہ جن کے اسلام کے لیے نبی کریم ۖ نے دعا فرمائی تھی- کس طرح ممکن تھا کہ امیرالمومنین کی حق گو اور حق شناس زبان سے عقیدے کی اتنی بڑی خطا کا ارتکاب ہوتا-
    اس حدیث پر غو رکریں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی زندہ آدمی کے وسیلے سے دعا کرائی جاسکتی ہے- اس کا مطلب یہ نہیں کہ برہ راست اس کا وسیلہ طلب کیا جائے بلکہ سیدنا عمر رض کی طرح اس نیک اور صالح شخص کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ وہ خود دعا کرے-

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

  7. #7
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Default

    امیر المومنین کی اس عظیم الشان روایت سے توحید کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں- اللہ رب العزت ان پر ارب ہا ارب رحمتیں نازل فرمائے اور ساتھ ہی ساتھ حضرت امام بخاری رح کی قبر پر بھی اپنی رحمتوں کا نوول فرمائے جنہوں نے یہ روایت اپنی کتاب میں نقل فرمائی- اس حدیث سے قبر پرستی کی جڑیں کٹتی ہیں-
    وہ اس طرح کے کتنے جبہ پوش مولوی کہتے ہیں کہ قبروں سے فیض حاصل ہوتا ہے- اصحاب قبور سے استغاثہ و استعانت کی جاسکتی ہے- وہ فریاد رس ہوتے ہیں- ان سے کوئی پوچھے کہ مدینہ کے باسی بارش کے لیے تڑپ رہے تھے اور یہ باسی عام مسلمان نہیں تھے بلکہ اصحاب محّمد ۖ تھے- ان میں عثمان غنی تھے، علی المرتضی تھے، سعد بن ابی وقاص تھے، عباس تھے، ابن عباس تھے، ابن عمر تھے اور سب سے بڑی بات عمر بن خطاب تھے- (رضی اللہ علیھم اجمعین) ان میں سے کسی کے وہم و گمان یا خیال میں بھی یہ بات نہ آئی کہ ہم دن میں 5 مرتبہ مسجد نبوی میں آتے ہیں- ہمارے دن کا بیشتر حصہ قبر رسول اللہ ۖ کے پہلو میں واقع مسجد میں گزرتا ہوتا ہے- کیوں نہ ہم حجرہ عائشہ رض کا رخ کرلیں اور رسول اللہ ۖ کی قبر پر حاضر ہوکر ان سے دعا مانگيں کہ مدینہ کے باسیوں کی پیاس مٹادیں- یا رسول اللہۖ! آپ کے ساتھی پیاس کے ہاتھوں جان دے رہے ہیں- ان پر نطر کرم فرمائيں- لیکن انہوں نے سنت رسول ۖ کی پیروی میں نماز استسقاء ادا فرمائی اور اللہ تعالی سے مدد طلب کی-
    انہیں یہ نہ سوجھا کہ "بھردے جھولی میری یا محمد" نا ان میں سے کسی نے یہ قوالی کی- اس لیے کہ وہ محمد ۖ کے تربیت یافتہ تھے- وہ موحد تھے، مشرک نہیں تھے- اگر انہوں نے اللہ ک وچھوڑ کر نبی کریم ۖ سے ہی مدد مانگنا تھی تو پھر مسلمان کیوں ہوئے تھے؟ اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر شرک کے اندھیروں میں ڈوبنا۔۔۔۔۔۔۔یہ ان کے لیے کیسے ممکن تھا؟
    حضرت عباس بن عبد المطلب رض نے جو دعا فرمائی وہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رح نے نقل فرمائی ہے- اس کا مفھوم یہ ہے:
    " اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناھ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی- آپ کے نبی کے یہاں میری قدر و منزلت تھی- اس لیے قوم مجھے بڑھا کر اپ کی بارگاھ میں حاضر ہوئی ہے- یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناھ کی ےتھے اور توبہ کی لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجیے-"
    ( فتح الباری 2/497)
    اصحاب رسولۖ کے اور بھی واقعات ملتے تھے کہ جب انہیں کوئی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے کسی نیک انسان سے دعا کے لیے کہا اور اس سے دعا کروائی-
    "امیر المومنین سیدنا معاویہ رض نے يزید بن اسود رح سے بارش کی دعا کروائی اور ان کی دعا کے وسیلے سے بارش طلب کی-"
    (طبقات ابن سعد 7/444)، کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی 2/380-381)

    "اس طرح ضحاک بن قیس رض نے بھی يزید بن اسود رح سے دعا کروائی تھی-"
    ( الثقات لابن حبان 5/532) کتاب المعرفۃ والتاریخ اللفسوی 2/381)

    یزید بن اسود رح اگرچہ تابعی تھے لیکن اصحاب رسول ۖ کے ہاں ان کی قدر و منزلت کا اس سے اندازہ ہوتے ہے-
    رسول اللہ ۖ کی ذات کو یا مخلوق میں سے کسی کو وسیلہ بنانا یا مردوں سے شفاعت مانگنا، دعا کے اندر اس طرح کہنا ہر گز جائز نہیں ہے: " اے اللہ! میں اپ سے نبی کے واسطے یا کسی فلاں کے واسطے یا کسی فلاں مردے کی روح کے واسطے سے آپ سے سوال کرتا ہوں"- اس قسم کے تمام الفاظ کے ساتھ دعا کرنا جائز نہیں- وہ وسیلہ جو اللہ تعالی سے اس کے پاکیزہ ناموں اور صفات کے ذریعے کیا جائے جیسا کہ کہے اے رحیم! مجھ پر رحم کر، اے بخشش کرنے والے میری بخشش کر، اس طرح اللہ تعالی سے ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے سوال کرنا جیسا کہ کہے: اے اللہ! آپ پر ایمان لانے اور آپ کے رسولوں کی تصدیق کرنے پر آپ مجھے جنت میں داخل کردیں- کسی نیک آدمی، مرد، عورت جو کہ زندہ ہوں ان کے پاس جاکر ان سے دعا کروانا جائز ہے- کیونکہ مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے کرنا مقبول ہے، البتہ کسی مردے سے دعا کرنا حرام ہے اور ناجائز ہے-
    تمام مذکورہ مسائل اللہ تعالی کے بندوں پر حقوق شمار ہوتے ہیں- اس لیے اللہ تعالی کے علاوہ دوسروں سے دعا کرنا جائز نہیں ہے- کسی مردے یا کسی قبر پر جاکر ان کے وسیلے سے مانگنا شرک ہے وسیلہ صرف اللہ تعالی کی ذات پاک کا ہے- یہ حق صرف اللہ تعالی کا ہے کہ اس سے مانگا جائے اور اسی ذات پاک کے دروازے پر جایا جائے اور التجا کی جائے- ہم سب اس کے محتاج و فقیر ہیں- اللہ پاک ہمیں نیک ھدایت عطا فرمائے- آمین

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

  8. #8
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Arrow مسئلہ وسیلہ

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔
    Last edited by mosakhan; 30th July 2010 at 10:42 AM.

  9. #9
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Default

    غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے

    قسم کو عربی لغت میں حلف یا یمین کہتے ہیں جس کی جمع احلاف اور ایمان ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر تاکید اور پختگی کیلئے رب ذوالجلال کی قسم کھانا ( یمین کہلاتا ہے ) اور قسم صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماءو صفات کی کھانا جائز ہے اللہ رب العزت کے اسماءو صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے ۔

    قسم کی تین قسمیں ہیں ۔
    ( 1 ) لغو قسم :
    وہ قسم ہے جو انسان بات بات پر بغیر ارادہ و نیت کے کھاتا رہتا ہے ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔

    ( 2 ) غموس :
    وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دوسرے کو دھوکہ اور فریب دینے کیلئے کھائے ، یہ کبیرہ گناہ ہے لیکن اس پر کفارہ نہیں صرف توبہ ہی ہے ۔

    ( 3 ) معقدہ :
    وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں پختگی کیلئے ارادۃً ونیۃً کھائے ، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس پر کفارہ ادا کرنا لازم ہے ۔

    قسم کی مشروعیت قرآن و سنت اور اجماع سے ثابت ہے
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    (( لا یواخذکم اللّٰہ باللغو فی ایمانکم ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان )) ( المائدۃ : 89 )
    ” اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا ، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو ۔ “

    ایک آیت میں ارشاد ربانی ہے :
    (( واوفوا بعھد اللّٰہ اذا عاھدتم ولا تنقضوا الایمان بعد توکیدھا وقد جعلتم اللّٰہ علیکم کفیلا ۔ ۔ ۔ )) ( النحل : 91 )
    ” اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم آپس میں قول و قرار کرو ، اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو ، باوجودیکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو ۔ “
    یعنی قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے اب اسے توڑنا نہیں ، بلکہ اس عہد و پیمان کو پورا کرنا ہے جس پر قسم کھائی ہے ۔

    قسم کھانے کا حکم
    اللہ جل شانہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں تین مقامات پر اپنے رب کی قسم کھانے کا حکم دیا ۔

    ( 1 ) فرمایا :
    (( ویستنبک احق ھو قل ای وربی انہ لحق ۔ ۔ ۔ ۔ )) ( یونس : 53 )

    ( 2 ) اور فرمایا :
    (( وقال الذین کفروا لاتاتینا الساعۃ قل بلی وربیّ لتاتینکم ۔ ۔ ۔ ۔ )) ( سبا : 3 )

    ( 3 ) تیسرے مقام پر فرمایا :
    (( زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن ثم لتنبون بما عملتم )) ( التغابن : 7 )

    سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قسم کا اثبات ہے ۔ بخاری شریف کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : واللہ اگر اللہ نے چاہا تو میں جب بھی کوئی قسم کھالوں اور پھر دوسری چیز کو اس کے مقابل بہتر سمجھوں تو وہی کروں گا جو بہتر ہو گا اور اپنی قسم توڑ دوں گا ۔ “ ( بخاری حدیث نمبر : 6721 )

    غیر شرعی کاموں پر قسم کھانا سراسر ناجائز ہے اگر کوئی آدمی ایسی قسم کھالے تو اس کو توڑ دینا ضروری ہے ، بالغرض کوئی شخص لاعلمی میں اس طرح کی قسم کھالے تو معلوم ہونے پر اسے اپنی قسم توڑ دینی چاہیے اس پر کسی قسم کا کفارہ وغیرہ نہیں ہوگا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ” ومقلب القلوب “ و ” مصرف القلوب “ یا ” والذی نفسی بیدہ “ کے الفاظ کےساتھ قسم کھایا کرتے تھے ۔

    عہد قدیم اور دور حاضر کے تمام ائمہ و علماءاسلام کا قسم کے مشروع ہونے اور اس کے احکام پر اجماع ہے ۔
    تمام ادوار میں تاکید کیلئے قسم کا معروف طریقہ چلا آرہا ہے قسم متعدد مواقع پر کھائی جا سکتی ہے ۔

    ( 1 ) مخاطب کو اپنی بات پر یقین دلانے کیلئے کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا اور نہ ہی وعدہ خلافی کرے گا ۔

    ( 2 ) خود کو اس بات کا پابند کرنے کیلئے کہ وہ کوئی ممنوع کام سرانجام نہیں دے گا یا کسی کام کے کرنے میں کوئی چیز ترک نہیں کرے گا ۔ یہ اس لیے کہ بسا اوقات انسان کی طبیعت کسی کام کے کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے جبکہ وہ کام شرعاً جائز نہیں ہوتا ، ان دونوں صورتوں میں جب آدمی اس پر قسم کھا لے گا تو وہ قسم کی عظمت اور مخاطب کے ساتھ کےے وعدے کی پاسداری کرے گا اور حتی الوسع قسم کو پورا کرنے کی کوشش کرے گا ۔

    قسم اگرچہ مشروع عمل ہے لیکن ہر بات پر قسم کھانا مستحسن نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام بن جاتا ہے کہ وہ ہر بات پر قسم کھائے بغیر نہیں رہ سکتے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    (( ولا تطع کل حلاف مھین )) ( القلم : 10 ) ” کہ تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ہے ۔ “

    اس سے معلوم ہوا کہ کثرت سے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ دوران گفتگو زیادہ قسمیں کھانا انسان کو جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کے دل سے قسم کی عظمت و وھیبت جاتی رہتی ہے اور پھر اس کا انسان کی شخصیت پر بھی کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا ۔

    لیکن آج کل لوگوں کا رویہ اس کے برعکس ہے خصوصا تاجر و دوکاندار حضرات جھوٹی سچی قسمیں کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں ، اشیاءکے عیوب چھپانے اور ناقص و گھٹیا مال پر زیادہ منافع کمانے کی خاطر پے در پے قسمیں کھائے چلے جاتے ہیں اور کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” قسم کی وجہ سے سامان تو جلدی فروخت ہو جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے “ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا : کہ اس حدیث میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ قسمیں کھانے کی ممانعت ہے اور بغیر ضرورت کے قسم کھانا مکروہ ہے کیونکہ اس میں مشتری کو دھوکہ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے ، ابن حجرعسقلانی رحمۃاللہ علیہ کا قول ہے کہ جھوٹی قسم کے ذریعے کمائے گئے مال میں برکت نہیں رہتی ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( سامان فروخت کرتے وقت دوکاندار کے ) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دیتی ہے یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر کمائے گئے مال میں برکت نہیں رہتی ، گو وقتی طور پر انسان منافع کما کر خوش ہو جاتا ہے لیکن ایسا مال برکت والا نہیں ہوتا ۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

  10. #10
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Default

    قسم کا اعتبار
    براءبن عازب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کاموں کے کرنے کا حکم دیا ، ان میں سے ایک ” ابرار المقسم “ بھی ہے کہ قسم کھا لینے والے کی قسم پوری کرانا ، اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے یا معمولات زندگی میں کسی کام پر قسم دلائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی قسم پر اعتبار کرے ، اسے رد نہ کرے ، بشرطیکہ وہ کام غیر شرعی نہ ہو ۔ اور نہ ہی اس کام میں کسی قسم کے نقصان وغیرہ کا اندیشہ ہو ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمان بھائی کی قسم کا اعتبار کرنا اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے بشرطیکہ وہ کام شریعت کے عین مطابق ہو اور اس میں دھوکہ دہی وغیرہ کا امکان نہ ہو ۔

    قسم کا حکم
    قسم کا حکم اس کے مختلف احوال کے مطابق ہو گا ۔

    ( 1 ) واجب قسم :
    جب آدمی خود کو یا کسی دوسرے انسان کی جان کو محفوظ کرنے کیلئے قسم کھائے جیسا کہ قتل کے الزام میں جب کسی شخص پر قصاص و پھانسی کی سزا عائد کر دی جائے ، حالانکہ وہ شخص بے قصور ہو تو ایسے موقع پر سچی قسم کھانا اور اس کا اعتبار کرنا واجب ہے ۔

    ( 2 ) مستحب قسم :
    ایسے امور و معاملات جو شرعی مصلحت کے متقاضی ہوں جیسے باہم ناراض فریقین کے درمیان صلح کرانا یا فساد وغیرہ سے بچنے کیلئے قسم کھانا مستحب ہے کیونکہ اس سے بہت سارے مفسدات سے بچا جا سکتا ہے ۔

    ( 3 ) جائز قسم :
    کسی جائز و مباح کام کے کرنے پر قسم کھانا ، جبکہ قسم کھانے والے کو یقین ہو کہ وہ سچا ہے ایسی قسم جائز ہے ۔

    ( 4 ) مکروہ قسم :
    کسی مستحب کام کو ترک کرنے پر قسم کھانا مکروہ ہے ۔

    ( 5 ) حرام قسم :
    سراسر جھوٹی قسم کھانا حرام ہے
    قرآن کریم میں اس کی مذمت کی گئی ہے ارشاد ربانی ہے :
    (( ویحلفون علی الکذب وھم یعلمون )) ” کہ وہ سب کچھ جاننے کے باوجود جھوٹی قسمیں کھاجاتے ہیں ۔ “
    یعنی منافقین قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ہیں یا یہودیوں سے ان کے رابطے نہیں ہیں ۔

    قسم صرف اللہ رب العزت کی کھائی جائے غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے ۔ قسم صرف اور صرف رب ذوالجلال کے اسماءو صفات کی کھانی چاہیے جیسے اللہ کی قسم ، رب کعبہ کی قسم ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ، مجھے پیدا کرنے والے یا رزق دینے والے رب کی قسم وغیرہ اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے اسماءو صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے ، چاہے وہ چیز کتنی ہی باعث تعظیم و متبرک کیوں نہ ہو ، جیسے قرآن کی قسم ، کلمہ کی قسم ، کعبہ کی قسم ، رسول کی قسم ، پیرو مرشد کی قسم ، والدین کی قسم ، ایمان کی قسم یا والدین کی قسم یا جان کی قسم وغیرہ وغیرہ ، اس طرح کی تمام قسمیں حرام ہیں ۔ کیونکہ اللہ اور اسکے رسول نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے اور غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے جو شخص قسم کھانا چاہے اسے چاہیے کہ صرف اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے ، اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ دادا ، ماں اور دیگر بزرگ ہستیوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا ، اور اللہ کی قسم کھانے میں بھی احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا کہ اگر آدمی سچا ہو اور اسے اپنی بات پر بھرپور یقین ہو تو پھر قسم کھائے ۔

    ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ قسم کھانے والا اللہ کے علاوہ جس کی قسم کھاتا ہے گویا وہ اس کی تعظیم کر رہا ہے جو رب کی تعظیم کے مشابہہ ہوتی ہے اور اللہ کی تعظیم کے مشابہہ کسی مخلوق چیز کی تعظیم نہیں ہو سکتی ، لہٰذا غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ، ابن قدامہ مزید فرماتے ہیں کہ جو شخص غیر اللہ کی قسم کھالے اسے چاہیے کہ وہ ” لا الہ الا اللہ “ کہے ، یعنی شرک سے توبہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرے ۔

    امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جو شخص غیر اللہ کی قسم کھائے اسے چاہیے کہ وہ استغفراللہ کہے ( اپنے اس کبیرہ گناہ پر اللہ رب العزت سے معافی طلب کرے )
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے لات اور عزیٰ ( زمانہ جاہلیت کے بتوں ) کی قسم کھائی ، اسے چاہیے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہے ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا ۔

    قسم توڑنے کا کفارۃ
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    (( فکفارتہ اطعام عشرۃ مسکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفتم واحفظوا ایمانکم ۔ ۔ ۔ ۔ )) ( المائدۃ : 89 )
    ” قسم توڑنے کا کفارۃ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ، اوسط درجے کا ، جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو ، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے ، اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ تین دن روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو ، اور اپنی قسموں کا خیال رکھو ۔ “

    کفارے کے طور پر کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں ہے اس مسئلہ میں اختلاف ہے ، البتہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے ایک مد ( تقریبا 10 چھٹانک ) فی مسکین خوراک قرار دی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کیلئے 15 صاع کھجوریں دی تھیں جنہیں ساٹھ مسکینوں پر تقسیم کرنا تھا اور ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لیے دس مد ( یعنی سوا چھ کلو ) خوراک گندم یا چاول کفارہ ہوگی ۔
    ( واللہ اعلم بالصواب )

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

  11. #11
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Arrow عقیدہ توحید کی تعریف اور فضلیت

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    توحید کے لغوی معنی:

    یہ واحد سے تفصیل کے وزن پر ہے.
    کہا جاتا ہے کہ "وَحّدالشئی"
    میں نے اِس چیز کو ایک بنایا اور میں اِس کے ایک ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوں.
    واحد عربی میں ایک کو کہتے ہیں، اسی طرح احد کا مطلب بھی ایک ہے
    جس طرح اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لئے فرمایا:
    ( قل ھو اﷲ احد ) (سورۃ اخلاص : ١)
    [ کہو! کہ وہ اﷲ ایک ہے (یعنی وہ ربوبیت ،الوھیت اور اسماء وصفات میں ایک ہے) ]

    توحید کے اصطلاحی معنی :

    اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہی ہے اپنے رب ہونے میں ...
    اور اپنے تمام ناموں اور صفتوں میں
    اور اِس بات کا بھی اعتقاد رکھنا کہ وہی ہم سب کا رب اور حقیقی مالک ہے کہ بس صرف وہی عبادت کیئے جانے کا مستحق ہے.

    توحید کا تصور کس صورت میں ممکن ہے؟

    جیسا کہ اوپر توحید کی تعریف بیان کی گئی ہے ،اسی نقطہ نظر کومد نظر رکھتے ہوئے یہ بات بہت اہم و ضروری ہے کہ ان اسباب کا ذکر کیا جائے جن کے بغیر نظریہ توحید کا تصور قائم نہیں ہوسکتا۔
    یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اس وقت تک عقیدہ توحید کے بارے میں کوئی نہیں سوچ سکتا ،
    کیونکہ اگر اﷲ تعالیٰ کی ذات ِ پاک کوہی نہ مانا جائے اور اس کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے تو پھر کس ذات کی ربوبیت و الوھیت کو مانا جائے گا؟
    و نیز اس کے بغیر شرک کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ شرک کا ارتکاب بھی اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کی موجودگی کا اقرار کیئے بغیر ناممکن ہے.
    لہٰذا اب اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ حقائق و اسباب بیان کیئے جائیں جو اﷲ تعالیٰ کی وجود کی موجودگی پر دلالت کرتے ہیں
    کیونکہ ایمان باﷲ کا اہم تقاضا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کو مع صفات مانا جائے.

    مندرجہ ذیل سطور میں ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے.
    اﷲ تعالیٰ کی ذات کی موجودگی پر چار چیزیں دلالت کرتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

    (١) فطرت (٢) عقل (٣) شریعت (٤) حس

    (١) فطرت :

    اﷲ تعالیٰ نے انسان میں فطرت کامادہ پیدا کرکے اپنی موجودگی کی حجت اس پر قائم کردی . جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا اور نہ وہ کچھ کہہ و سمجھ سکتا ہے

    جیسا کہ اﷲ خالقِ عظیم نے فرمایا:
    (واﷲ اخرجکم من بطون امھٰتکم لاتعلمون شیئاََ۔۔۔۔۔۔)
    (النحل :78 )
    (اﷲ نے تمہیں (اس حال میں) ماؤں کے پیٹ سے نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔۔۔۔۔۔ )

    جب بچہ پید ہوتا ہے تو وہ فطری طور پر مسلمان ہوتا ہے
    لیکن بعد میں ان کے والدین غلط عقائد اس کے ذہن میں ڈال کر اس کو گمراہ عقیدہ کا حامل بنادیتے ہیں

    جیسا کہ خاتم النبین و امام الموحدین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
    (ایسا کوئی بچہ نہیں مگر اس کی پیدائش فطرت (ایمان باﷲ) پر ہوتی ہے، پس اس کے والدین اگر یہودی ہیں تو اس کو یہودی بنا لیتے ہیں، یا اس کے والدین اگر نصرانی ہیں تو اس کو نصرانی بنا لیتے ہیں ، یا اس کے والدین مجوسی ہیں تو اس کو مجوسی (پارسی - آگ کی عبادت کرنے والے) بنا لیتے ہیں ۔
    (یہ امام بخاری کی روایت ہے)۔

    لہٰذا جو بھی انسان اﷲ تعالی کی ذات کامنکر ہے وہ نہ اﷲ تعالیٰ کو دھوکہ دیتا ہے اور نہ ہی اﷲ پر ایمان رکھنے والوں کو بلکہ وہ خود کو دھوکہ دے کر اس فطرت کا انکار کرتا ہے جو پیدائشی طور پر اس میں موجود تھی .
    اس کا نتیجہ سوائے دنیا میں ذلت و خواری اور آخرت میں رب کی تکذیب کے سبب جہنم رسید ہونے کے علاوہ کچھ نہیں.

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

  12. #12
    mosakhan's Avatar
    mosakhan is offline Senior Member+
    Last Online
    6th August 2011 @ 07:06 AM
    Join Date
    25 May 2010
    Age
    37
    Posts
    127
    Threads
    20
    Credits
    955
    Thanked
    36

    Arrow 2 عقیدہ توحید کی تعریف اور فضلیت

    (٢) عقل :
    اﷲ تعالیٰ خود حکیم ہے اور عقل کی تمام خوبیاں مکمل طور پر یعنی بغیر کمی کے اس میں موجود ہیں ، اﷲ تعالیٰ تمام کمزوریوں و نقص سے پاک ہے.
    کائنات کی بڑی سے چھوٹی مخلوق پر اگر ہم نظریں ڈالیں گے تو ہمیں اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں کوئی خامی و فتور نظر نہیں آئے گا ، نہ ہی کوئی ایسی چیز کو پائیں گے جو بغیر کسی مقصد و فائدے کے پیدا کی گئی ہو.
    اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کائنات کے ذرہ ذرہ کو پیدا فرما کر اپنی عظیم صفت یعنی حکمت کا ثبوت مخلوقات کے سامنے پیش کردیا، پھر اس بات کا چیلنج دے کر مزید اپنی طاقت کو ظاہر کیا کہ اس کی پیداکی ہوئی چیزوں میں کوئی بھی نقص دھونڈ کر دکھائے

    جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
    ( الذی خلق سبع سمٰوٰت طباقا ما تری فی خلق الرحمن من تفٰوت فارجع البصر ھل ترٰی من فطور )
    (الملک:٣ )
    (جس نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے آپ اﷲ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھو گے،پس اپنی نظر لوٹاؤ(آسمان کی طرف) کیا تمہیں اس میں کوئی نقص نظر آتا ہے)

    اﷲ تعالیٰ کو ماننے والوں نے اﷲ تعالیٰ کو اس دنیا میں میں نہیں دیکھا مگر وہ ان نشانیوں و علامات سے اس کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں جو اس نے پیدا کی ہیں.
    مثلاً زمین و آسمانوں کی پیدائش ، اسی طرح سورج ،چاند، ستارے، سمندر ، دن رات کا نظام، آسمان سے بارش کا برسنا پھر مردہ زمین سے سبزہ کا اگلنا، اسی طرح مرد و عورت کا جوڑا پیدا کرنا غرض بے شمار نشانیاں ہیں جس کو بیان کرنے سے اﷲ تعالی کے علاوہ ہر کوئی قاصر ہے.
    قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کرنے کا مقصد بھی یہی قرار دیا ہے کہ
    ان میں غور و تدبر کرکے عقلمند لوگ اﷲ تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں

    جیسا کہ فرمایا:
    ( ان فی خلق السمٰوات والارض واختلاف الیل والنھار لایات لی اولی الباب٭الذین یذکرون اﷲ قیاما و قعودا و علی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السمٰوات الارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار۔۔۔۔۔۔)
    (آل عمران:191-190 )
    [ بے شک آسمانوں و زمین کی پیدائش اور دن و رات کے بدلنے میں عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں
    ٭جو ذکر کرتے ہیں کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اور لیٹ کر اور آسمانوں و زمین کی پیدائش میں تفکر(غور وتدبر) کرتے ہیں
    (پھرغور و تدبر کرنے کے بعد کہتے ہیں)اے ہمارے پروردگار ! تو نے یہ سب کچھ بے معنی پیدا نہیں کیا توپاک ہے پس ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔۔۔۔۔۔]

    مذکورہ آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور دن کا رات میں بدلنے اور رات کا دن میں بدلنے میں انسانوں کیلئے اس بات کے بڑے ثبوت موجود ہیں کہ یہ چیزیں بغیر کسی خالق کے پیدا نہیں ہوئیں ، اسی طرح ان کی تدبیر کرنے والا بھی وہی ہے .
    زمین کو اﷲ تعالیٰ نے اس صورت میں پیدا کیا کہ وہ بچھونے کا کام بھی دیتی ہے اور اس سے انسان کی خوراک و دیگر ضروریات پوری ہوتی ہے ، پھر اس پر میخوں کی طرح پہاڑوں کو گانٹ کر مزید مضبوط بنایا تاکہ وہ ہل کر زلزلہ کی صورت اختیار نہ کرے.
    اسی طرح آسمان کو اﷲ تعالیٰ نے بغیر کسی عمد یعنی ستون کے کھڑا کرکے انسانوں کو حیرت میں ڈال دیا ،یہ چھت کا کام بھی دیتا ہے اور اس میں سورج و چاند ستارے کی موجودگی روشنی و دیگر فوائد کا سبب ہیں .
    پھر ایک نہیں سات آسمانوں کو طبقوں میں تقسیم کرکے اپنی عظیم طاقت و قدرت کا مظاہر ہ کیا.
    اب اﷲ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق آسمان میں ہوائیں چلتی ہیں پھر وہ ان ہواؤں سے بادلوں کو اکٹھا کرکے ان کو آپس میں ٹکراتا ہے جس سے بارش برستی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ہی زمین سے مختلف قسم و مختلف رنگ و نسل کے پھل و سبزیاں نکل کر انسانوں و جنوں کیلئے یک بار پھر چیلنج کی صورت اختیار کرجاتی ہے کہ اگر وہ خود یا ان کے پیر، ولی اور دیگر بت وغیرہ اس قسم کی نشانیاں پیش کرسکتے ہیں تو پھر کرکے دکھائیں.
    غرض اﷲ تعالیٰ نے ان عظیم مخلوقات کو پیدا کرکے اپنی عظمت و حکمت کی خوبی انسانوں و جنوں کے سامنے پیش کردی ہے.

    (٣) شریعت :

    اﷲ تعالیٰ کی ذات کی موجودگی کی دلالت کا منہ بولتا ثبوت اﷲ وحدہ لاشریک لہ کے وہ احکام ، اصول و قوانین ہیں جن میں سراسر عدل وانصاف، ہدایت ودیگر خیر و بھلائیوں کے خزانے پوشیدہ ہیں. .اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ آسمانی کتب و نبیوں کی سنت میں ایسے ضوابط و قواعد کے سرچشمے موجود ہیں جو عین انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق اور ان میں زندگی گزارنے کے وہ تمام اصول و طریقے موجود ہیں جن پر عمل کرنے سے بے شمار مسائل حل کیے جاسکتے ہیں اور کامیابی و کامرانی کا دنیاوی و آخروی سرٹفیکیٹ حاصل کیا سکتا ہے.
    لیکن جب انسان نے نفس کی خواہشات کو اپنا الہٰ بنایا اور جہالت اختیار کرکے اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کو بدل کر اپنے اصولوں کو اختیار کیا تو اس کا نتیجہ سوائے خون خرابے اور فتنہ و فساد کے کچھ نہ نکلا کیونکہ انسانی اصولوں و قاعدوں میں نہ انصاف ہے اور نہ مسائل کا حل.
    تورات ،زبورو انجیل وہ آسمانی کتب ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی بھلائی و خیر خواہی کیلئے نازل کیں لیکن جب ان کتب کے ماننے والوں نے ان میں اپنی منشاء سے مفادات حاصل کرنے اور حق چھپانے کیلئے تحریفیں کر ڈالیں تو اس کا خمیازہ خود ان کو ناانصافی و ظلم اور قتل وغارت نیز چوری و ڈھاکے کی صورت میں بھگتنا پڑا.
    اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث کرکے اور ان پر اپنی آخری سچی کتاب نازل کرکے ایک بار پھر بنی آدم پراپنا فضل و کرم فرمایا.تاریخ گواہ ہے جب تک مسلمانوں نے کتاب اﷲ و سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کی اﷲ تعالیٰ نے ان کی وجہ دنیا کو امن و امان کا گہوارہ بنایا لیکن جب یہ دونوں چیزوں ترک کی گئیں اور غیر شرعی اصولوں کو نافذ کیا گیا تو اس کا نتیجہ ہم خود آج دیکھ رہے ہیں کہ تمام مسلمان فرقوں میں بھٹک گئے ہیں اور آپس میں قتل و غارت و ایک دوسرے پر ظلم کرنے میں مصروف ہیں.اﷲ تعالیٰ کے قانون میں ازل سے ابد تک کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا، جیسا کہ متعدد باراس مضمون کو دہرایا۔۔۔
    ایک آیت کے آخر میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
    ( ولن تجد لسنتۃ اﷲ تبدیلا ) (الاحزاب: 62)
    (اور آپ اﷲ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے).

    اسی طرح قرآن میں بھی کوئی اختلاف و تصادم موجود نہیں

    جیسا کہ فرمایا:
    ( افلا یتدبرون القرآن ولوکان من عندی غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا)
    (النساء: 82)
    کیا یہ لوگ (قرآن کا انکار کرنے والے یا اس میں شک و شبہ کرنے والے) قرآن میں تدبر (غور وفکر) نہیں کرتے اگر یہ غیراﷲ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے ۔

    اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جو بھی قرآن پر ایمان نہیں لائے گا اور اس پر عمل نہیں کرے گا تو پھر اختلاف و تفرقہ اس کا مقدر بنے گاکیونکہ انسان کا نظریہ ایک نہیں رہتا بلکہ جب وہ جوان ہوتا ہے تو بچپن کے نظریہ کو غلط کہتا ہے ، پھر جب بڑھاپے میں پہنچ جاتا ہے تو جوانی کے نظریہ کو برا بھلا کہتا ہے .
    اسی طرح انسانوں کے اپنے بنائے گئے تمام مذہبی عقائد و زندگی گزارنے کے طور و طریقے بھی متوازن نہیں بلکہ ہر روز ان میںنت نئی تبدیلیاں کی جاری ہے جس کی وجہ سے اختلافی مسائل نے جنم لیا ہے اور تفرقہ ان کے درمیان پیدا ہو گیا ہے. لیکن اﷲ تعالیٰ کے بنائے گئے اصول اپنی جگہ پر قائم ہیںاور قیامت تک قائم رہیں گے.

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو ایسے حکیمانہ قوانین نازل کرسکتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور ذات نہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ کرسکے. لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت خود اس بات کی گواہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ مع ذات و صفات موجود ہے.

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Page 1 of 3 123 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 72
    Last Post: 29th July 2018, 05:33 PM
  2. Replies: 2
    Last Post: 24th October 2011, 01:13 PM
  3. Replies: 3
    Last Post: 21st February 2011, 07:33 AM
  4. Replies: 4
    Last Post: 25th December 2010, 10:59 AM
  5. Replies: 30
    Last Post: 27th March 2010, 11:40 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •