اسلام علیکم
ساس بہو کا جھگڑا 99 فیصد گھروں کے لئے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ یہ جھگڑا عورت کی
(Lust of Possession)
کی بنیاد پر وجود پذیر ہوتا ہے۔ عورت میں ملکیت کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ اس میں شراکت برداشت نہیں کر سکتی ۔ بیوی کی حیثیت سے وہ سوکن کو اور ماں کی حیثیت سے وہ بہو کو برداشت کرنے پر بڑی مشکل سے تیار ہوتی ہے۔
جب ایک دوسری عورت اس کے بیٹے کی زندگی میں آتی ہے اور اس کے وقت اور مال و دولت میں شریک بنتی ہے تو یہ بات ماں کے لئے برداشت کرنا بہت مشکل ہوتی ہے۔ وہ طرح طرح سے اپنی بہو پر ظلم ڈھاتی ہے۔ اگر بہو نرم مزاج کی ہو تو وہ ان تمام سختیوں کو سہتی رہتی ہے لیکن اگر وہ بھی اسی طرح مضبوط ہو تو اس کی جوابی کاروائیاں بھی شروع ہو جاتی ہیں جو اکثر گھروں کی تباہی پر منتج ہوتی ہیں۔ جب یہ بہو ساس بنتی ہے تو پھر سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس مسئلے کا محرک وہی حسد کا جذبہ ہے جس کی بنیاد پر ابلیس اللہ تعالیٰ کا سرکش بنا۔ ذرا غور کیجئے تو اللہ تعالیٰ کا ایک عابد و زاہد بندہ جس کی ساری عمر ہی اس کی عبادت میں گزری ہو، کس طرح اس کا سرکش بن سکتا ہے؟ یہ حسد ہی کا جذبہ ہے جو بندے کے وجود کو کھوکھلا کر کے اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے مالک سے ٹکر لینے پر تیار ہو جائے جس کا نتیجہ ابدی تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
حسد کا جذبہ انسان کی ملکیت کی خواہش
(Lust of Possession)
کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اسے آپ تکبر کا ثمر بھی قرار دے سکتے ہیں۔ انسان خود کو بہت کچھ اور ہر چیز کا حق دار اور دوسرے کو کچھ نہ سمجھتا ہے جس کے نتیجے میں وہ تکبر اور پھر حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا حل صرف اور صرف تزکیہ نفس ہے جو اچھی تربیت کا نتیجہ ہے۔یہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زیر تربیت افراد کو حسد کے نتائج سے آگاہ کریں۔ ہمارے مذہبی طبقے کا بھی یہ فریضہ ہے کہ وہ تزکیہ نفس کی عظیم تحریک بپا کریں جس کی ہمارے معاشرے کو شدید ضرورت ہے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)۔
Bookmarks