اے میرے پیارے حبیب آپ فرما دیں کہ کیا علم والا اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں؟
اس با ت کا فرق وہی رکھتے ہیں جو عقلمند انسان سمجھتے ہیں کہ عالم اور بے علم ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالی نے علم کو بڑا مقام دیا ہے ۔ آپ اور ہم غور کریں کہ جب پہلی وحی اتری تو امت کو توحید کا پیغام بھی دیا جا سکتا تھا اس لیے کہ توحید اتنا اہم عقیدہ ہے ۔ اس کے بغیر انسا ن مسلمان ہو نہیں سکتا اور مشرک کو اللہ رب العزت کبھی بھی جنت میں جانے نہیں دیں گے اور کیے ہوئے عملوں کو ضا ئع کر دیں گے مگر اللہ نے توحید کا درس پہلے وحی میں نہیں بھیجا ۔
رسالت کا پیغام بھی بھیجا جا سکتا تھا ۔مگر ایسا اللہ نے نہیں کیا۔ اور نہ ہی قیامت کے دن کے بات کی کیونکہ وہ فیصلے کا دن ہے اس دن کی رسوائی بہت بڑی اور بری ہے ۔ اخلاق کی بات بھی ہو سکتی تھی اس لیے کہ دین اسلام ہے خیر خواہی کا دین ہے مگر اس کا زکر نہیں کیا گیا۔
پہلی وحی اتری تو کس بارے میں اقراء۔
یعنی علم کے بارے میں یہ اتنا اہم ہے کہ یہ بنیاد ہے باقی تمام چیزوں کی۔
علم ہے تو ۔۔۔ توحید بھی ہے ، رسالت بھی ہے اور قیامت بھی ہے اگر علم نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں اس لیے اللہ نے اس ان پڑھ امت کو علم کا پیخام سب سے پہلے دیا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو ایسے راستے پر چلا جا کا مقصد علم حاصل کرنا ہے۔۔ اللہ تعالی اس کے بدلے اس پر جنت کا راستہ آسان فرمادے گا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔جو آدمی اپنے گھر سے علم کی طلب میں نکلتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہوتا ہے جب تک کہ واپس نہ لوٹ آئے
جو طالب علم اپنے گھر سے نکلا اور اسکو موت آ گئی سبحان اللہ اس کا نام شہدائے آخرت میں لکھا جائے گا
اس پر تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے
میرے نزدیک تو اتنا ہی کافی ہے کہ علم ہمارے رب کو بہت بہت پسند ہے اس لیے اس نے توحید سے پہلے اس کا زکر فرمایا۔
علم تو بڑی بات ہے اگر طالبِ علم کو اپنا مقام ہی معلوم ہوجائے تو وہ استاد بننے کی سوچے ہی نہیں۔ طالبِ علم ہی رہے یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوجائے۔
اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہو تو پیشگی میں معذرت ۔ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھنا
Bookmarks