Bhai topic to acha hy lekin agr aap ksi Quran ki aayat ka or Hadees ka reference de dete to bohat acha hota kyun k aaj kal k dour me hum sirf Quran or Hadees k elawa ksi cheez pr or ksi bhi shakhs pr Deeni muamlaat me aitbaar or yakeen nhi kr sakte please koi bhi aisi cheez share krne se pehle dekh lein k us me Quran or Hadees ka reference hy or phr aap wo hadees ya Quran ki aayat khud check kren phr share kren is tarha aap bhi Gumrahi se bachein or Dusron ko bhi bachaein Allah aap ko Amal ki Toufeek de Aameen
for Refernce as u advised please read this thread.
mashaAllah jazak Allah khair
Nice
السلام علیکم بھائی اس موضوع پر جو پیج شئیر کیا گیا ہے وہ ایک اخبار کا ہے ۔اس مضمون کو پروفیسر ڈاکڑ محمد امین نے تحریر کیا ہے
اس مضمون میں انھوں نے قرآنِ پاک اور حدیث کا حوالہ بھی دیا ہے
یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ۔۔حدیث اور قرآن پاک کی آیات کا ترجمعہ تحریر کیا ہے
اس کی ان کی نظر میں وجہ یہ ہے کہ کیونکہ یہ اخبار میں چھپ رہا ہے اور ہمارے ہاں لوگ اخبارات استعمال کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتے ہیں کہ اخبار وغیرہ میں قرآنی آیات اور حدیث جو چھپی ہوتی ہیں ان کے عمل کی وجہ سے ان کی بے ادبی ہو رہی ہوتی ہے اور وہ گناہ گار ہورہے ہوتے ہیں۔
اس نیت کے ساتھ پروفیسر صاحب نے قرآن پاک اور حدیث کے الفاظ بلکل اسی طرح اپنی تحریر میں استعمال نہیں کیے ہیں۔
آپ ایک بار مضمون کو تنقید برائے تعمیر کی نیت سے پڑھ کر دیکھیں
اللہ پاک قبول فرمانے والا ہے
شکریہ
u r right haseeb..............
mashALLAH boht hi achi sharing ki ha bhai ap ny
ALLAH AP KO IS KA AJJER ATA FRMAYE.
AMEEN
jazakallah
شب برات کی حقیقت :
(( انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم ))( الدخان : 3,4 )
” تحقیق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات میں اتاری ہے ۔ بے شک ہم لوگوں کو ڈرائیں گے ۔ اسی رات میں تمام باحکمت امور کی تفصیل کی جائے گی ۔ “
لیلۃ مبارکہ کی تشریح :
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو قول ہیں ۔ بعض کے نزدیک لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ( جو رمضان میں آتی ) ہے اور بعض کے نزدیک شب برات ہے :
(( قیل سمیت لیلۃ البراۃ لان براتین براۃ الاشقیاءمن الرحمن وبراۃ الاولیاءمن الخذلان ))( غنیۃ الطالبین : 192/1 )
شب برات اس لئے نام رکھا گیا کہ اس میں دو نجاتیں ہیں ۔ ایک نجات بدبختوں کی عذاب الٰہی سے ، دوسری نجات اولیاءاللہ کی رسوائی و ذلت سے ۔
(( قال قتادۃ وابن زید ھی لیلۃ القدر انزل اللہ القرآن فی لیلۃ القدر قیل ھی لیلۃ النصف من شعبان ))( معالم خازن : 143/5 )
(( وعن بعض ھی لیلۃ النصف من شعبان ))( جامع البیان : 420 )
(( ھی لیلۃ القدر او لیلۃ النصف من شعبان نزل فیھا من ام الکتاب من السماءالسابعۃ الی السماءالدنیا والجمھور علی الاول کذا فی المدارک ))( جلالین : 410 )
مذکورہ عبارات میں بعض نے لیلۃ مبارکۃ سے مراد لیلۃ القدر بھی لیا ہے اور بعض نے شب برات ( پندرہ شعبان ) مراد لیا ہے ۔ تفسیر صاوی میں ہے :
(( ھی لیلۃ النصف من شعبان ھو قول عکرمۃ وطاتفۃ وجہ بامور منھا ان لیلۃ النصف من شعبان لھا اربعۃ اسماءلیلۃ المبارکۃ ولیلۃ البراۃ ولیلۃ الرحمۃ ولیلۃ الصک ومن افضل العبادۃ فیھا ))( حاشیہ جلالین : 410 )
تفسیر صاوی میں ہے کہ لیلۃ سے مراد شب برات ہے ۔ یہ مسلک عکرمہ اور ایک دوسرے گروہ کا ہے ۔ اس کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ لیلۃ مبارکۃ کے چار نام ہیں :
1 لیلۃ مبارکہ ۔
2 لیلۃ الرحمۃ ۔
3 لیلۃ البراۃ ۔
4 لیلۃ الصک ۔
اور اس میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ۔
امام شوکانی فتح القدیر میں رقمطراز ہیں کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور اس کے چار نام ہیں ۔ لیلۃ مبارکہ ، لیلۃ البراۃ ، لیلۃ الصک ، لیلۃ القدر ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ : جمہور کا مسلک بالکل صحیح ہے ۔ کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے ، شب براۃ نہیں ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اجمال سے بیان فرمایا اور سورۃ القدر میں بیان فرمایا کہ : انا انزلنہ فی لیلۃ القدر یعنی قرآن مجید رمضان المبارک میں لیلۃ القدر کو نازل کیا گیا ، جس کو اس جگہ لیلۃ مبارکۃ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس وضاحت کے بعد کوئی شبہ باقی نہیں رہا ۔
فتح القدیر میں ہے کہ
: ” حضرت عطیہ ابن اسود رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ میرے دل میں ان تین آیتوں کے بارے میں شک ہے کہ اس سے کیا مراد ہے ؟
1 رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ۔
2 بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے ۔
3 بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ مبارکہ میں نازل کیا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قرآن رمضان میں لیلۃ القدر کو نازل کیا گیا اور اسی کا نام لیلۃ مبارکہ ہے ۔ تفسیر کبیر میں ہے :
(( القائلون بان المراد من اللیلۃ المذکورۃ فی ھذہ الایۃ ھی لیلۃ النصف من شعبان فما رایت لھم دلیلا یقول علیہ ))
یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد شب برات ہے ۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ :
(( من قال انھا لیلۃ النصف من شعبان فقد ابعد النجحۃ فان نص القرآن انھا فی رمضان ))
جس نے کہا کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے اس نے دور کی بات کہی ۔ کیونکہ نصِ قرآن سے ثابت ہے کہ وہ رمضان میں ہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر137/2 )
تحفۃ الاحوذی میں ہے کہ تو جان لے بے شک آیت :
(( انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ ))
لیلۃ مبارکہ سے مراد جمہور کے نزدیک لیلۃ القدر ہے ۔ بعض اسے شب برات سمجھتے ہیں ۔ جمہور کا مسلک صحیح ہے ۔
بعض اسلاف کا خیال ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے ۔ لیکن یہ قول نصوص قرآن کے مخالف ہے ۔ کیونکہ قرآن کا نزول رمضان میں لیلۃ القدر میں ہے ۔ لہٰذا لیلۃ مبارکہ سے مراد بھی لیلۃ القدر ہے ۔ اس طرح آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
شبِ برات کی احادیث اور ان کی حیثیت :
1 حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا :
جامع ترمذی میں ہے ۔ ( ترجمہ )
بے شک اللہ تعالیٰ شب برات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گناہ گاروں کو معاف فرماتے ہیں ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے سنا وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ کیونکہ حجاج سے یحییٰ اور یحییٰ سے عروہ کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا حدیث منقطع ہے ۔
2 حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ :
(( یطلع اللہ الی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفرہ لجمیع خلقہ الا لمشرک او مشاحن ))( طبرانی ، ابن ماجہ ، صحیح ابن حبان فی سندہ عند ابن ماجہ ابن لہیعۃ وھو ضعیف ) ” شب برات کو اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کی طرف دیکھتے ہیں ، مشرک و کینہ پرور کے ماسوا ہر ایک کو معاف فرماتے ہیں ۔ اس روایت میں ابن لہیعۃ راوی ضعیف ہے ۔ “
3 : حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ :
(( یطلع اللہ عزوجل الی عامۃ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الا اثنین مشاحن وقاتل النفس ، قال المنذری رواہ احمد باسنادہ )) شب برات کو اللہ تعالیٰ کینہ پرور اور قاتل کے سوا ہر ایک کو معاف فرماتے ہیں ۔ علامہ امام منذری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف سے روایت کیا ہے ۔
4 حدیث کثیر بن مرۃ رضی اللہ عنہ :
” فی لیلۃ النصف من شعبان یغفراللہ عزوجل لاھل الارض الا مشرک او مشاحن قال المنذری رواہ البیھقی وقال ھذا مرسل جید “امام منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام بیہقی نے روایت کر کے فرمایا کہ یہ روایت بہت مرسل ہے ۔
5 حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ : ابن ماجہ
جب شب پندرہ شعبان ( شب برات ) ہوتی ہے تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو بے شک اللہ تعالیٰ غروب شمس کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہے کوئی بخشش مانگنے والا ، اس کو بخش دوں گا ، کوئی رزق لینے والا ہے اسے میں رزق دوں گا ، کوئی مصیبت زدہ ہے اس کی مصیبت کو دور کروں گا ، کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے ؟ طلوع صبح صادق تک اللہ تعالیٰ یہی ندا دیتے رہتے ہیں ۔
تحفۃ الاحوذی : 53/2 میں ہے کہ :
حدیث علی رضی اللہ عنہ کی سند میں ابوبکر بن عبداللہ راوی ہے جس پر وضع روایت کا الزام ہے ۔ امام بکاری رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے ۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزہ شبِ برات کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح مرفوع میں نے نہیں پائی ۔ باقی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ جس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے وہ بہت ضعیف ہے ۔ امام جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جو کہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھے گا اس کے ساٹھ سال گذشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے گناہ معاف کئے جائیں گے ۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اس کی سند تاریک و سیاہ ہے ۔
احادیث مذکورہ بالا میں چند اخلاقی و اعتقادی گناہ ایسے بھی ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے اس رحمت بھری رات میں بخشش و مغفرت سے محروم رہتے ہیں ۔ جیسے مشرک ، کینہ روی ، قتل نفس ، زنا و شراب نوشی ، قطع رحمی وغیرہ ۔ اگر کبائر کا مرتکب خلوصِ دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دیتے ہیں ۔
قرآن میں ہے :
یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ( الزمر : 52 )
فرمایا اے میرے بندے گناہ کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے میری رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ ۔
حدیث میں ہے :
” التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ “
جو صد دل سے توبہ کرتا ہے ، گناہ سے پاک ہو جاتا ہے ۔
6 حدیث مغیرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ :
(( تقطع الرجال من شعبان الی شعبان حتی ان الرجل ینکح ویولد لہ وقد اخرج اسمہ فی الموتی فھو حدیث مرسل ، ومثلہ لا یعارض بہ النصوص ))( تفسیر ابن کثیر : 137/4 )
اس رات شعبان سے شعبان تک لوگوں کی عمریں لکھی جاتی ہیں ، یہاں تک کہ ایک آدمی نکاح کرے گا اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گا اور اس کا نام مردوں میں لکھا جا چکا ہے ۔ ( یہ حدیث مرسل ہے اس کا نصوص سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا )
نمازِ شب برات :
1 قال القاری فی المرقاۃ ان مائۃ رکعۃ فی نصف شعبان او الصلوٰۃ الف رکعۃ الم یات بھا خبر ولا اثر .... الخ( تحفۃ الاحوذی : 53/2 )
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ مشکوٰۃ میں بیان کیا ہے کہ شب برات میں سو رکعت نماز اور ہزار رکعت نماز باجماعت یا انفرادی ، اس کا ثبوت کسی بھی صحیح حدیث میں نہی ہے ۔ جو امام دیلمی اور صاحب احیاءوغیرہ نے نقل کیا ہے یہ ضعیف وموضوع ہے ۔
2 علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ ” آثار مرفوعہ “ میں فرماتے ہیں ۔
” ان تمام احادیث قولیہ و فعلیہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زیادہ کرنا مستحب ہے لیکن لوگوں کو نماز اور غیر نماز میں فرق رہے جو چاہیں عبادت کریں لیکن اس رات عبادت مخصوصہ کیفیت مخصوصہ کے ساتھ اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ مطلق نماز نفلی شب برات اور اس کے علاوہ راتوں میں جائز ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ شیخ ابراہیم جلی ” منیۃ المصلیٰ “ کی شرح ” غنیۃ المستملی “ میں فرماتے ہیں : ” اس سے معلوم ہوا کہ صلوٰۃ الرغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کو پڑھی جاتی ہے اور پندرہویں شعبان کی رات اور رمضان کی ستائیسویں رات ( لیلۃ القدر ) کی جو نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے ۔ ان راتوں میں نماز باجماعت پڑھنا بدعت اور مکروہ ہے ۔ ( یہ وعید نماز تراویح کے علاوہ نفلی نماز باجماعت کے لئے ہے ) یعنی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ضعیف روایت کو فضائل اعمال میں قبول کرنے پر تمام کا اتفاق ہے ۔ اس کے متعلق علامہ عبدالحئی فرماتے ہیں :
” فضائل اعمال میں بھی قبول نہیں کی جائیگی ۔ یعنی فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے متعلق اتفاق کا دعویٰ باطل ہے ۔ ہاں جمہور کا مذہب ہے بشرطیکہ وہ حدیث ضعیف نہ ہو ، زیادہ ضعیف نہ ہو ۔ ( آثار مرفوعہ : 73 )
ان دلائل سے واضح ہوا کہ شب برات کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ احادیث صحیحہ میں ہے ۔ ان تمام روایات کے پیشِ نظر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے ، صحیح نہیں ہے ۔ ستم یہ ہے کہ ہم سربسجود ہونے کی بجائے حلوہ ، بارود ، آتشبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ خالق کائنات اہل زمین پر فضل و کرم کی بارش فرماتے ہیں اور ہم آتش بازی سے اس کا استقبال کرتے ہیں
تاریخ کے حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ۱۳۲ھ میں جب بنو عباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے دیکھا کہ بنو امیہ کو شکست دینا آسان کام نہیں کیونکہ عرب کے جنگجو لوگ اموی حکومت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایرانیوں اور عجمیوں سے تعاون لینے کے لیے سوچا۔ ایرانی آتش پرست تھے مگر فاروقی اور عثمانی حکومت کی فتوحات نے مجوسی آتش کدوں کو سرد کر دیا تھا مگر آتش پرست ایرانی مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایرانیوں کا ایک مشہور خاندان"خاندان برامکہ"تھا ۔ "برمک"کہتے ہیں آتش کدے کی آگ روشن کرنے اور اس کی نگرانی کرنے والے کو ۔یہ مجوسیوں کے ہاں سب سے بڑا مذہبی عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ جب مسلمانوں کی آمد سے برمک عہدے بھی ختم ہو گئے تو برمکی خاندان کے لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا مگر اندورنِ خانہ آگ سے محبت برقرار رکھی۔ جب بنوعباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھینا تو ایسے نو مسلم عجمیوں سے تعاون لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی امور سلطنت میں شامل ہو گئے۔ بلکہ برمکی خاندان نے تو حکومت اسلامیہ میں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیے اور خالد برمکی تو وزیراعظم کے عہدے تک جا پہنچا۔ ۱۶۳ھ میں خالد کا انتقال ہو ا تو خلیفہ ہارون الرشید نے اس کے بیٹے یحییٰ برمکی کووزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ برمکی چونکہ سابقہ آگ پرست تھے اس لیے یحیٰ برمکی نے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مقدس آگ کو روشن کرنے کا ایک عجیب طریقہ ایجاد کیا۔ اور خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات کو نیک اعمال سے منسوب کرکے اس رات کثرت سے چراغاں کیا۔آگ روشن کرنے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں آگ کا تقدس اور وقار پیدا کرنا تھا۔ مساجد میں چراغاں کی بدعت کو اسی نے ایجاد کیا تاکہ وہ اس طرح آگ کی پوجا کر سکیں گویا آتش بازی اور چراغاں کی رسم اسلام میں ڈیڑھ سو سال بعد جاری ہوئی ۔پھر زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں اور آتش بازی کی جدید صورت جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں
Bookmarks