تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم
ٹھیک ھے جناب سب سے پھلے تو میں یہ ثابت کرتا ھوں کہ حیاتِ مسیح قرآنِ پاک سے نہ ثابت ھوتی ھے اور نہ ھی اسے کوئی صراحت حاصل ھے۔
عمر صاحب آپ کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ علیہ سلام وفات پا چکے ہیں اور مرزا قادیانی مثیل مسیح ہے۔
اور آپ نے کہا کہ حیات مسیح کی قران میں صراحت ہی نہیں ہے۔
آپ نے اپنے دلائل دینے تھے وفات عیسیٰ ابن مریمؑ پہ قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ سے لیکن جناب آپ تو مولانا مودودی کا حوالہ دے رہے ہیں۔
مولانا مودودی کا بہت سے معاملات میں علماء سے اختلاف رہا ہے اور مولانا مودودی کے اپنے اجتہاد کو کسی بھی عالم نے قبول نہیں کیا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مولانا مودودی کے اجتہاد کو کن کن علماء نے قبول کیا ہے اور ان کو مستند قرار دیا ہے؟؟؟
دوسرا مولانا مودودی کا حوالہ آپ کے کسی کام کا نہیں کیونکہ مولانا خود حیات عیسیٰ علیہ سلام کے قائل تھے۔
نہ اس حوالے سے وفات عیسی ثابت ہوتی ہے اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرزا مثیل مسیح تھا تو جناب یہ حوالہ آپ کے کسی کام کا نہیں۔
انہی صفحات میں اس کی صراحت موجود ہےکہ مولانا حیات عیسی کا عقیدہ رکتھے تھے۔
اسی آیت کے حاشیہ 195 کے شروع میں ہی مولانا صاحب نے یہ جملہ فرما کر وضاحت کر دی حیات عیسیٰ علیہ سلام کی کہ ''اس میں جزم اور صراحت کے ساتھ جو چیز بتائی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح کو قتل کرنے میں یہودی کامیاب نہیں ہوئے ، اور کہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی طرف اُٹھالیا۔ ''۔( تفہیم القران صفحہ 420، حاشیہ 195)۔
اس سے ہی واضح ہو گیا کہ مولانا کا عقیدہ حیات عیسی کا تھا کہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھایا ہے اور موت نہیں دی۔
اب آگے صفحہ پہ مولانا عیسیٰ علیہ سلام کے رفع جسمانی کی تصدیق کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ عیسی علیہ سلام کا رفع جسمانی حدیث سے ثابت ہے۔
''پھر رفع جسمانی کے اس عقیدے کو مزید تقویت اُن کثیر التعداد احادیث سے پہنچتی ہے جو قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السّلام کے دوبارہ دنیا میں آنے اور دجّال سے جنگ کرنے کی تصریح کرتی ہیں( تفسیر سُورۂ احزاب کے ضمیمہ میں ہم نے ان احادیث کو نقل کر دیا ہے)۔ اُن سے حضرت عیسیٰ کی آمدِ ثانی تو قطعی طور پر ثابت ہے۔''۔(تفہیم القران صفھہ 421، )۔
یہاں مولانا کا رفع جسمانی کا ذکر کرنا اور اس رفع کا احادیث سے تصدیق کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حیات عیسی کے ہی قائل تھے۔
اگر مولانا مودودی صاحب کی تفھیم کا مکمل جائزہ لیا جائے تو کئی ایسے اشارے ملتے ہیں جو اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ ان کا عقیدہ بھی بقیہ امت کے عقیدے سے مخلتف نہیں تھا مثلا
سورہ آل عمران آیت ۵۴ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں
توفی کے اصل معنی لینے اور وصول کرنے کے ہیں، "روح قبض کرنا" اس لفظ کا مجازی استعمال ہے نہ کہ اصل لغوی معنی۔یہاں یہ لفظ انگریزی لفظ (To recall) کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔یعنی کسی عہدے دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔ (تفہیم ج ۱ ص ۲۵۷)۔
یعنی وہ حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہر گز نہیں۔
آگے لکھتے ہیں کہ
''لیکن ایسا کرنے کے بجائے قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی موت کی تصریح نہیں کرتا، اور صرف یہی نہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو زندہ اُٹھائے جانے کے مفہوم کا کم از کم احتمال تو رکھتے ہی ہیں، بلکہ عیسائیوں کو اُلٹا یہ اور بتا دیتا ہے کہ مسیح سرے سے صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے، یعنی وہ جس نے آخر وقت میں ”ایلی ایلی لما شبقتانی“ کہا تھا اور وہ جس کی صلیب پر چڑھی ہوئی حالت کی تصویر تم لیے پھرتے ہو وہ مسیح نہ تھا، مسیح کو تو اس سے پہلے ہی خدا نے اُٹھا لیا تھا۔
اس کے بعد جو لوگ قرآن کی آیات سے مسیح کی وفات کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل یہ ثابت کرتے ہیں کہ اللہ میاں کو صاف سلجھی ہوئی عبارت میں اپنا مطلب ظاہر کرنے تک کا سلیقہ نہیں ہے۔ اعاذ نا اللہ مِن ذٰلِک۔''(تفہیم القران جلد 1 صفحہ 258)۔
یہاں تو وہ آپ جیسے لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں کہ جو لوگ قران سے وفات عیسی ثابت کرتے ہیں اصل میں ان کا اعتراض اللہ پہ ہے۔
یہاں تو انہوں نے واضح بات کہہ دی۔
اُمید ہے کہ مولانا کے عقیدہ کی وضاحت ہو چکی ہو گی کہ مولانا کا حوالہ آپ کے کسی کام کا نہیں اور وہ حیات عیسی کے ہی قائل تھے۔
یہ دعوایٰ کرنا کہ حیاتِ مسیح قرآنِ پاک سے ثابت ھوتی ھے مودودی صاحب کے مطابق بھی افترا ھے۔
امید ھے کہ آپ اپنے علماء کی پیروری کرتے ھوئے یہ تسلیم کر لیں گے کہ حیاتِ مسیح قرآنِ پاک
سے ثابت نھیں ھوتی ۔
جناب اوپر میں نے واضح کر دیا کہ مولانا مودودی کا عقیدہ بھی حیات عیسی کا تھا اور وہ عیسی علیہ سلام کی موت کے قائل نہیں ہیں تو یہ افترا آپ مولانا مودودی پہ باندھ رہے ہیں کہ وہ وفات عیسی کے قائل تھے۔
دوسرا آپ قران اور حدیث سے ثابت کریں کہ عیسی علیہ سلام وفات پا گئے ہیں اور مرزا مثیل مسیح ہے علماء کے حوالوں سے نہیں۔
اپ کا دعوی قران سے ہے علماء کے حوالوں سے نہیں۔
Bookmarks