عمرہ سے واپسی والی فلائٹ سے کالا پانی کے سمندر میں لاپتہ طیارہ دیکھنے کا دعویٰ ۔ملائشیا کی ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے عمرہ سے واپسی پر سعودی عرب کے شہر جدہ سے اپنے آبائی ملک ملائشیا کے شہر کوالالمپور کی فلائٹ سے آٹھ جنوری کو لاپتہ طیارے کو’ ’کالا پانی‘‘ کے بھارتی سمندر پر تیرتا ہوا دیکھا تھا۔راجہ دلیلہ راجہ لطیف نامی اس ۵۳ سالہ مسلم خاتون نے کہا ہے کہ اس نے اپنی سہیلیوں کوفوراََ جگایا اور انھیں بتایا کہ اس نے لاپتہ جہاز کے پروں اور دُم کو پانی پر تیرتا ہوا دیکھا مگر اس کی سہیلیوں نے اس کی بات پر یقین نہیں بلکہ اُلٹا اس کا مذاق اُڑایا ۔ائیر ہوسٹس خاتون نے بھی اسے سو جانے اور آرام کرنے کا مشورہ دیا۔جہاز کے پائلٹ نے بھی اس کے دعوے سے اتفاق نہیں کیا کہ سات میل کی بلندی سے نیچے سمندر میں ڈوبتے ہوئے یا تیرتے ہوئے جہا زکا نظر آنا مشکل ہے۔ لیکن ایک بات تصدیق شدہ ہے کہ جس جہاز میں یہ مسافر خاتون بیٹھ کر سعودی عرب سے ملائشیا آئیں تھیں وہ بحر ہند کے کالا پانی کے علاقہ کے اوپر سے گزرکر آیا تھا۔خاتون نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ مقدس مقامات سے واپس آئی اُسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟۔ عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس آنے والی س خاتون نے کوالالمپور کے ائیر پورٹ پر اُترتے ہی اپنے خاندان کو بتایا کہ اس نے لاپتہ جہاز کو’’ کالا پانی ‘‘کے بھارتی سمندر میں دیکھا اور جب ا ئیر ہوسٹس کو بتایا تو اس نے جواب دیا کہ :آپ سو جائیں آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔لیکن جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے مسز راجہ دلیلہ راجہ لطیف نامی خاتون کی باتوں پر لوگ کافی حد تک یقین کرنے لگے ہیں اس کی وہ سہیلیاں جو اس کا مذاق اُڑاتی تھیں وہ بھی اس بات کو اہمیت دینے لگی ہیں۔ڈیلی میل کے مطابق اخبار کے کئی قارہین اور کچھ کوالیفائڈ پائلٹوں نے بھی مسز راجہ دلیلہ راجہ لطیف کے دعوے یا سوچ سے اتفاق کیا ہے کہ سات میل کی بلندی سے نیچے سمندر میں کسی بڑی شے کا نظر آنا ممکن ہے۔راقم الحروف( پنوں خان منہاس) کو بھی یقین ہے کہ ہمارے بھی بہت سے قارہین اس سے اتفاق کریں گے جہاز کی بلندی سے نیچے سمندر میں کسی چیز کا نظر آنا ممکن ہے کہ کئی بارپی آئی اے ۔ائیر بلیواور امارات کے ہوائی جہاز سے نیچے ترکی اور یورپ کے سمندر’’ اِنگلش چینل ‘‘ میں کشتیاں دیکھی جاسکتی ہیں** لاپتہ طیارہ کے بارے میں اب سب کچھ قیاس( تھیوری۔یا۔سوچ) پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے اور ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر جہاز کارابطے کا سسٹم جان بوجھ کر بند کردیا گیا تھا اور جہاز کسی دوسرے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہوتے وقت اپنی شناخت کرانے میں ناکام رہا تو پھر یقیناََ اسے میزائل سے تباہ کر دیا گیا ہے اور تباہ کرنے والے ملک نے شاید اس لیے خاموشی اختیار کر لی ہے کہ جہاز کے سمندر میں غرق ہونے کے ساتھ ہی میزائل کے تباہ شدہ پرزے بھی غرق ہو جائیں گے ،جس کے بعد میزائل کی شناخت کی پہچان بھی مشکل ہو جائے گی اور ذمہ دار مجرم ملک انصاف کے کٹہرے میں آنے سے بچ جائے گا۔اگرواقعی ایسا ہے تو امریکہ میں ہونے والا ’’نائن الیون ‘‘ کا واقعہ سامنے رکھ کر ہی یہ سب کچھ کیا گیا ہوگا کہ جہاز کو مشرق بعید(فار ایسٹ)کے کسی بھی ملک (ملائشیا۔انڈونیشا۔سنگا پور۔ہانگ کانگ۔برما۔ چین وغیرہ) کی بلند عمارت یا فوجی چھاونی میں یہ جہاز ٹکرایا جا سکتا ہے۔بھارتی نیوی،فوج اور ائیر فورس کا ’’کالا پانی‘‘ کا اڈہ بھی ان علاقوں سے دُور نہیں ہے۔نائن الیون کے دہشت گردی کے واقعہ سے کسی کو بھی انکار نہیں البتہ اُس وارادت کو ذمہ دار کون تھا؟یہ بحث تا قیامت جاری رہے گی۔شاید ملائشیا کے لاپتہ طیارے کا معمہ بھی محشر کے دن سامنے آئے،مگر کیا اس وقت کسی کو اس سے کوئی دلچبسی ہو گی؟ یقیناََ نہیں کہ سب کو اپنے اعمال کی فکر پڑی ہوئی ہو گی۔ دس سال قبل یہ خبر آئی تھی کہ نائن الیون کی نقل کر کے جہازوں کو بلند عمارتوں سے ٹکرانے کے خطرات سے بچنے کے لیے برمنگھم میں کچھ بلند عمارتیں بنانے کے منصوبے ترک کردیے گئے تھے؟۔ چند ماہ قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ نائن الیون سے ۵۶ سال پہلے جرمنی کے فوجی سربراہ ایڈولف ہٹلر نے امریکہ کی بلند عمارتوں تک پہنچنے کے لیے چار ہزار میل کا لمبا سفر طے کرنے والے لڑاکا جہاز تیار کرنے کا حکم دیا تھا مگر اُسے وقت نہیں ملا**وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا*لمحوں نے خطا کی، صدیوں نے سزا پائی*شاید یہ بدنامی مسلمانوں کے کھاتے میں لکھی گئی تھی
Bookmarks