kingirshad said:
jo ilm nabi ko thi (wo sub wahi thi)
mere bhai ap (surat e hawa) pharen ap jaan jaengy.
Gaib sirf allah hi janta he.
Koi makhalooq nabi ya jin hata k farishty b nh janty.
Is tareeq e se allah k ilm k saath nabi ko shareek kr ke munker mat banen.
Aur istghfar kren.
علمِ غیب عطائی، مجازی، حادث کی مثال یہ آیتیں ہیں :
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا ” علم غیب ” بھی ہے ۔اس بات پر تمام امت کا اتفاق ہے کہ علم غیب ذاتی تو خدا کے سوا کسی اور کو نہیں مگر اﷲ اپنے برگزیدہ بندوں یعنی اپنے نبیوں اور رسولوں وغیرہ کو علم غیب عطا فرماتا ہے۔ یہ علم غیب عطائی کہلاتا ہے قرآن مجید میں ہے :
(1) ہُدًی لِّلْمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیب ِ (پ1،سورہ البقرۃ:2،3)
ترجمہ: قرآن ان پر ہیز گار وں کا ہادی ہے جو غیب پر ایمان لائیں (ظاہر ہے کہ غیب پر ایمان جان کر ہی ہوگا )
(2) عٰلِمُ الْغَیبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِن رَّسُولٍ (پ29،سورہ الجن:26،27)
ترجمہ:اللہ غیب کا جاننے والا ہے پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پرکسی کو سوا پسندیدہ رسول کے۔
(3) وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیکَ عَظِیمًا ﴿ (پ5،النسآء:113)
ترجمہ: اور سکھا دیا آپ کو وہ جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔
(4) وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُونَ ﴿ (پ8،الاعراف:62)
ترجمہ: یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ جوآپ نہیں جانتے۔
5) وَاُنَبِّئُکُم بِمَا تَاکُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ ۙ فِی بُیُوتِکُمْ (پ3،اٰل عمرٰن:49)
ترجمہ: اور خبر دیتا ہوں میں تمہیں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو او رجو جمع کرتے ہو۔
(6) قَالَ لَا یَاتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖ اِلَّا نَبَّاتُکُمَا بِتَاوِیلِہٖ قَبْلَ اَن یَّاتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی (پ13،یوسف:37)۔
ترجمہ: یوسف علیہ السلام نے فرمایاجو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آئیگا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتا دوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے۔
(7) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیبِ بِضَنِینٍ (پ30،التکویر:24)
ترجمہ:اور وہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔
(8)ذٰلِکَ مِنْ اَنـبَآءِ الْغَیبِ نُوحِیہِ اِلَیکَ (پ3، سورہ آل عمران: 44)
ترجمہ: یہ غیب کی خبریںہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔
(9) وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِی مِن رُّسُلِہٖ مَن یَّشَآءُ ۪ (پ4 ،آل عمران : 179)
ترجمہ: اور اللّٰہ کی شان یہ نہیں اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللّٰہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔
احادیث سے علمِ غیب کا ثبوت
1۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مقام پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں تمام مخلوق کی پیدائش کے بارے میں بتایا حتٰی کہ جنتی اپنے ٹھکانےپر جنت میں داخل ہو گئےاور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے۔جس شخص نے اس کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتوں کو)یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا سو وہ بھول گیا۔(بخاری شریف جلد اول ، صفحہ 453)
اس حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسان یعنی آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لےکر قیامت تک یہاں تک کہ دخول ِجنت اور دوزخ کے احوال کے بارے میں فرما دیا۔پتہ چلا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کا علم عطا کیا
گیا ہے۔
2۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالٰی نے تمام زمین کو میرے لیئے سمیٹ دیا ہے چنانچہ میں نے زمین کا تمام حصہ مشرق سے مغرب تک ملاحظہ فرمایا اور بے شک میری امت کی حکومت عنقریب وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین کو میرے لیئے سمیٹا گیا۔ (مسلم شریف جلد 2 ، صفحہ 390)
تشریح: پتہ چلا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وصال ِظاہری سے پہلے ہی یہ علم تھا کہ میرے صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور بعد میں آنے والے مسلمان پوری دنیا پر حکمران ہونگےاور دین اسلام کا بول بالا ہوگا اور بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ مسلمان دنیا کے چپے چپے تک پہنچے اور صحرائوں ،جنگلوں ،پہاڑوں اور سمندروں کو عبور کر کے دین اسلام کے پیغام کو عام کیا۔
3۔حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے ، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھمابھی تھے تو پہاڑ ان کی وجہ سے ہلنے لگا توحضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ پر اپنا پائوںمبارک مار ا اور فرمایا اے احد ٹھہرجا کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (بخاری شریف جلد اول ، صفحہ 519)
تشریح: آج کوئی بھی شخص کسی کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی موت حادثے کی صورت میں ہوگی یا بیماری کی صورت میں ہوگی یا شہادت کی صورت میں ہوگی یا خود کشی کی صورت میں ، لیکن نبی غیب دان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ان کی زندگی میں ہی دے دی جیسا کہ بعد میں یہ دونوں عظیم ہستیاں شہید ہوئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی جنگ ِ بدر میں مشرکین کی مقتل گاہیں(قتل ہونے کی جگہ)دکھادیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کل ان شاء اللہ فلاں مشرک یہاں قتل ہوگا اور فلاں مشرک یہاں مرے گا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ جن مقامات کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نشاندہی فرمائی اس جگہ سے کوئی مشرک آگے پیچھے نہیں ہوا۔
Bookmarks