اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں تو اللہ تعالٰی ان کی کوتاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حالت درست کردے گا۔۔۔
لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلاف کی بنا پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہیں جو خارج از ایمان ہونے کی بنا پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟؟؟۔۔۔ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟؟؟۔۔۔
گذشتہ صفحات میں جو حدیث مبارک اُمت مسلمہ میں تہتر (٧٣) فرقوں کے ہونے کی پیشنگوئی سے متعلق گذری ہے اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابوداؤد رحمہ اللہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔۔۔
یہود اکہتر (٧١) اور نصارٰی بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ گئے اور یہ اُمت مسلمہ عنقریب تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ جہنم سے بچ جانے والا فرقہ کون سا ہوگا؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس طور طریقے پر ہوگا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں۔۔۔
اس حدیث میں افتراق اُمت مسلمہ کی پیشنگوئی کے لئے (ستفترق) کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ (عنقریب یا بہت جلد متفرق ہو جائیں گے) عربی زبان کے قواعد کے مطابق مستقبل قریب کے لئے مضارع کے صیغہ کے شروع میں (س) کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مستقبل بعید کے لئے لفظ (سوف) لکھا جاتا ہے جیسے قیامت کے وقوع اور جہنم کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے (سورہ الہاکم التکاثر) میں (کلا سوف تعلمون ) لئے الفاظ سے آگاہ کیا گیا ہے یعنی (ہر گز نہیں جلد ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا) چونکہ اس حدیث میں (سوف تفترق) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ (ستفترق) کہا گیا ہے اس لئے اس حدیث کی رد سے اُمت مسلمہ میں بہتر (٧٢) فرقوں کا وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے فورا بعد ہونا لازم آتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہوا بھی ہے پہلی صدی ہجری میں ہی بہتر (٧٢) گمراہ فرقوں کا وجود شروع ہوگیا تھا جن کی تشریح اور وضاحت علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ نے جو چھٹی صدی ہجری کے بزرک اور جید عالم ہیں اپنی کتاب (تلبس ابلیس) میں کی ہے البتہ اس کے بعد بہت سے فرقے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کئی نئے فرقے موجود ہیں جیسے قادیانی، نصیری، بہائی، اور اہل تصوف وغیرہ لیکن ان کے وجود سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے تمام فرقے لازمی طور پر ان بہتر (٧٢) گمراہ فرقوں کے خیالات کا چربہ یا ان کا نیا ادیشن ہیں۔ یہ بات ان کے خیالات اور معتقدات کا بغور مطالعہ کرنے اور انہیں قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے سے نآسانی معلوم کی جاسکتی ہے بہرحال بنیادی طور پر اُمت مسلمہ میں بہتر (٧٢) گمراہ فرقے رہیں گے اس سے زیادہ کبھی نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ صادق و مصدوق نبی کرام صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اور آپ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہوتا اور اگر تہتر سے عدد مخصوص نہیں بلکہ کثرت مراد لی جائے۔(جیسا کہ اہل علم کی ایک جماعت کی رائے ہے) تو ایسی صورت میں واقعہ حال اور حدیث میں سرے سے کوئی تعارض ہی نہیں ہوگا۔
فرقہ بندی کی ابتداء
اُمت مسلمہ میں فرقہ واریت کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سب سے پہلے سبائیوں کا فتنہ پیدا ہوا جس کا بانی عبداللہ بن سبا یہودی تھا، جو اسلام میں فتنہ انگیزی کی غرض سے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا اسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے استحقاق خلافت کے متعلق تو کچھ کہنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ ان کے نظم ونسق کے خلاف نکتہ چینی اور سیاسی تحریک اس یہودی نے مصر و عراق کے نو مسلموں کی مدد سے شروع کر دی ان سبائی باغیوں نے مدینہ منورہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور اس شورش کے تنیجہ میں بالآخر ١٨ ذی الحجہ ٣٥ ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان باغیوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔۔۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد جب انصار و مہاجرین کے متفقہ انتخاب سے حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو سبائی باغیوں کا یہ گروہ بھی ان سے بیعت خلافت لینے میں پیش پیش تھا ادھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب خون عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کیا اور مجرموں کو خود سزا دینے کی غرض سے خلیفہ وقت سے علیحیدہ ہو کر کے نہ صرف یہ کہ ملک شام میں اپنی الگ حکومت قائم کر لی بلکہ اس تنازع کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں اس قدر اختلاف اور بگاڑ پیدا ہوگیا کہ بالآخر دونوں کے لشکر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے اس طرح جنگ جمل اور پھر جنگ صفین میں مسلمانوں کے آپس میں ٹکرا جانے سے بڑا خوں خرابہ ہو تھا آخر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی تجویز فریقین میں قرآن مجید کو حکم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ سبائی گروہ جو کہ فتنہ انگیز تھا اور مسلمانوں میں باہم صلح و صفائی ان یہود فطرت لوگوں کو پسند نہیں تھی اس لئے انہوں نے تحکیم کے اس فعل کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھرپور مخالفت کی اور ان کی اطاعت سے خارج ہو کر ایک علیحدہ گروہ بنا لیا اس لئے اس کا نام (خارجی) پڑ گیا ان کا کہنا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو چھوڑ کر ایک انسان کا (حکم) مانا ہے اور یہ امر قرآن مجید کی آیت۔۔(افغیر اللہ ابتغی حکما) کی رد سے شرک ہے اور مشرک کی اطاعت جائز نہیں ان لوگوں کے نزدیک ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے اور وہ سدا دوزخ میں رہے گا۔۔۔
سبائیوں کا ایک بڑا گروہ جو (حرورا) کے مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا اس مناسبت سے (حروری خارجی) کہلایا اور باقی سبائی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں رہے (شیعان علی) کے نام سے موسوم ہوئے انہوں نے خارجیوں کے برخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غُلو اختیار کر کے الوہیت کا مرتبہ دے دیا اس طرح شیعہ مذہب کا ظہور ہوا چنانچہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم سے الک ہو کر دہ گمراہ فرقے وجود میں آگئے۔۔۔
١۔ خارجی۔۔۔
٢۔ رافضی شیعہ
Bookmarks