کیا روزے کے لیے سحری شرط ہے؟
کسی کو یہ غَلط فہمی نہ ہو جائے کہ سَحَری روزہ کیلئے شَرط ہے ۔ایسا نہیں سَحَری کے بِغیر بھی روزہ ہوسکتا ہے۔مگر جان بُوجھ کر سَحَری نہ کرنا مُناسِب نہیں کہ ایک عظیم سُنَّت سے مَحرومی ہے او ریہ بھی یاد رہے کہ سَحَری میں خُوب ڈَٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں۔ چندکَھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نِیّتِ سَحَری استِعمال کرلیں جب بھی کافی ہے بلکہ کَھجور اورپانی سے تَو سَحَری کرنا سُنَّت بھی ہے جیسا کہ کھجوراورپانی سے سَحری کرنا سنّت ہے
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالِک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ مدینہ، سُرورِ قَلبُ وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سَحَری کے وَقت مجھ سے فرماتے : ''میرا روزہ رکھنے کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھِلاؤ۔ تو میں کچھ کَھجُوریں اور ایک برتن میں پانی پیش کرتا۔ ''
(السُّنَنُ الکُبریٰ لِلنَّسائی ج۲ ص۸۰حدیث۲۴۷۷)
کھجور بہترین سحری ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !معلوم ہو ا کہ روزہ دار کیلئے ایک تو سَحَری کرنا بذاتِ خود سُنَّت ہے اورکَھجور اور پانی سے سَحَری کرنا دوسری سُنَّت بلکہ کَھجور سے سحَری کرنے کی تو ہمارے آقا ومولیٰ،مدینے والے مصطَفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ترغیب بھی دلائی ہے۔چُنانچِہ سَیِّدُنا سائِب بِن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے، اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب، عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ''نِعْمَ السَّحُوْرُ التَّمْرُ۔ یعنی کھجور بہترین سَحَری ہے۔''
(اَلتَّرْغِیب وَالتَّرھِیب ج۲ ص۹۰حدیث۱۲)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، نِعْمَ سَحُوْرُالْمُوْمِنِ التَّمْرُ۔ ''یعنی کَھجور مومن کی بہترین سَحَری ہے''۔
(سنن ابوداو،د ج ۲ ص۴۴۳حدیث۲۳۴۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کَھجوراور پانی کا جَمع کرنا بھی سَحَری کے لئے شرط نہیں صرف تھوڑا ساپانی بھی اگر بہ نِیَّتِ سَحَری پی لیا جائے تو اِس سے بھی سَحَری کی سنّت ادا ہوجائے گی۔
سَحری کا وقت کب ہوتا ہے؟
عَرَبی کی مشہُور کتابِ لُغت ''قامُوس'' میں ہے کہ سَحَر اُس کھانے کو کہتے ہیں جو صُبح کے وَقت کھایا جائے ۔ '' حنفیوں کے زبردست پیشوا حضرتِ علاّمہ مولیٰنا علی بن سلطان محمد المعروف مُلاّ علی قاری عَلَیہِ رَحمۃُ الْباری فرماتے ہیں، ''بعضوں کے نزدیک سَحَری کا وَقت آدھی رات سے شُروع ہوجاتا ہے۔''
(مرقاۃالمفاتیح شرح مشکوٰۃالمصابیح ج۴ ص۴۷۷)
سَحَری میں تاخِیر اَفضل ہے جیسا کہ حدیثِ مُبارَک میں آتاہے کہ حضرتِ سَیِدُّنا یَعْلیٰ بن مُرَّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایَت ہے کہ پیارے سرکار،مدینے کے تاجدارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا:''تین چیزوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ مَحبوب رکھتا ہے(ا)اِفطار میں جلدی اور (۲)سَحَری میں تاخِیر اور (۳)نَماز (کے قِیام ) میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔''
(اَلتَّرْغِیب وَالتَّرھِیب ج۲ص۹۱حدیث۴)
سحر ی میں تاخیر سے کون سا وقت مراد ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سَحَری میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے اور دیر سے سَحَری کرنے میں زیادہ ثواب مِلتا ہے۔مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ صبحِ صادق کا شُبہ ہونے لگے!یہاں ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہوتا ہے کہ ''تاخِیر '' سے مُراد کونسا وَقت ہے ؟ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان '' تفسیر نعیمی ''میں فرماتے ہیں کہ اِس سے مُراد رات کا چھٹا حِصّہ ہے ۔پھر سُوال ذِہن میں اُبھرا کہ رات کا چَھٹا حِصّہ کیسے معلوم کیا جائے ؟اِس کا جواب یہ ہے کہ غُروبِ آفتاب سے لیکر صُبح صادِق تک رات کہلاتی ہے ۔مَثَلاً کسی دِن سات بجے شام کو سُورج غُروب ہوا اورپھر چار بجے صُبحِ صادِق ہوئی۔اِس طرح غروبِ آفتاب سے لیکر صُبحِ صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ گُزرا وہ رات کہلایا۔اب رات کے اِ ن نو گھنٹوں کے برابر برابر چھ حِصّے کر دیجئے ۔ہر حِصّہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوا اب رات کے آخِری ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے ) کے دوران صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے جب بھی سَحَری کی ، وہ تاخیر سے کرنا ہوا ۔ سَحَری واِفطَار کا وَقت عُمُوماً روزانہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔بیان کئے ہوئے طریقے کے مطابِق جب بھی چاہیں رات کا چھٹا حصّہ نِکال سکتے ہیں اگررات سَحَری کر لی اور روزہ کی نِیَّت بھی کرلی ۔ بلکہ عَوامی اِصطِلاح میں ''روزہ بند ''بھی کرلیا پھر بھی بَقِیَّہ رات میں جب چاہیں کھاپی سکتے ہیں۔نئی نیَّت کی حاجت نہیں۔
اَذان فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے
سَحَری میں اِتنی تاخِیر بھی نہ کردیں کہ صُبحِ صادِق کا شک ہونے لگے۔ بلکہ بعض لوگ تو صُبحِ صادِق کے بعد فَجر کی اذانیں ہورہی ہوتی ہیں مگر کھاتے پیتے رہتے ہیں۔اور کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فُلاں مسجِد کی اذانخَتْم نہیں ہوئی یا وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں۔ اگر کھاتے نہیں تَو پانی پی کر اپنی اِصطِلاح میں ''روزہ بند ''ضَرور کرتے ہیں۔آہ ! اِس طرح ''روزہ بند' ' تو کیاکریں گے روزے کو بِالکل ہی''کُھلا '' چھوڑ دیتے ہیں اور یوں ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں اور سارادن بُھوک پیاس کے سِوا کچھ ہاتھ آتا ہی نہیں۔'' روزہ بند ''کرنے کا تَعلُّق اَذانِ فَجر سے نہیں۔صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضَروری ہے۔جیسا کہ آیَتِ مُقَدَّسہ کے تَحت گُزرا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو عَقلِ سَلیم عطا فرمائے اور صحیح اَوقات کی معلُومات کرکے روزہ نَماز وغیرہ عبادات صحیح صحیح بجالانے کی توفیق مَرحَمت فرمائے۔
آمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Bookmarks