طاعون سے بھاگنے والی جماعت کا انجام
بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے طاعون کے خوف سے اپنے گھروں کو چھوڑا تو وہ سب کے سب مر گئے ۔ قراٰنِ کریم میں ارشادِخدا وندی ہے
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاہُمْ اِنَّ اللہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْن
(پ۲، البقرۃ:۲۴۳)
ترجمۂ کنز الایمان :اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیابیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
تفسیرِ نعیمی میں اس آیت کے تحت جو واقعہ بیان کیا گیاہے اس کاخلاصہ کچھ یو ں ہے : ایک شہر کے لوگ طاعون کے ڈر سے کسی پہاڑی علاقے میں چلے گئے۔ وہاں ایک فرشتے نے بحکمِ الٰہی چیخ کر کہا ’’سب مرجاؤ‘‘ چنانچہ سب ہلاک ہوگئے۔ اُن کی لاشیں ایسے ہی پڑی رہیں یہاں تک کہ گَل سَڑگئیں۔اتفاقاً حضرتِ سیِّدُنا حِزْقِیْل عَلَیْہِ السَّلَام وہاں سے گزرے تو بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: الٰہی! اِنہیں زندہ فرمادے! ارشاد ہوا: آپ انہیں پکارئیے! چنانچہ، آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا: اے ہڈیو! اللہ کے حکم سے جمع ہوجاؤ! تمام ہڈیاں جمع ہوگئیں ، پھرفرمایا: اے گلے ہوئے جسمو!میرے پرورد گار کے حکم سے کھڑے ہو جاؤ! تووہ سارے یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے: سُبْحَانَکَ اللہُمَّ رَ بَّنَا وَبِحَمْدِکَ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ۔پھر یہ لوگ کئی سال زندہ رہے۔ مگر ان کے چہرے مُردوں کے سے تھے ۔ان سے اولاد بھی پیدا ہوئی ۔ اس آیت میں انہی لوگوں کا ذکر ہے ۔
(تفسیرِ نعیمی پ ۲، البقرہ، تحت الایۃ: ۲۴۳،۲/۴۸۲،مکتبہ اسلامیہ لاہور)
شانِ انبیاء
اس آیت سے چند فائدے حاصل ہوئے ۔پہلا فائدہ: حضور سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بَنُورِ بَنُورِ نَبُوَّت عالَم کے سارے اگلے پچھلے واقعات ملاحظہ فرمائے کیونکہ اتنے پرانے واقعہ کو’’ اَلَمْ تَرَ‘‘ اِسْتِفْہَامِ اِنْکارِی سے بیان فرمایا گیا کہ کیا آپ نے نہ دیکھا تھا یعنی ضرور دیکھا تھا۔ اِلٰی سے معلوم ہوتا ہے کہ رؤیت بمعنی نظر چشم ہے۔ ایسے ہی حضور نے آئندہ واقعات کو دیکھ کر خبر دی جن کے بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں۔
اَ لَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْن خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ سے اشارۃً دوباتیں معلوم ہوئیں (1) طاعون کے زمانہ میں گھر چھوڑدینا منع ہے خواہ شہر بھی چھوڑدیا جائے یا صرف محلہ تبدیل کیا جائے جب کہ وَبا سے بھاگنا مقصود ہو۔ (2) حضور کی نظر اس عالَم میں رہ کر ہر چیز کو دیکھتی بھی تھی اور پہچانتی بھی تھی ہماری آنکھیں بیک وقت بڑے مجمع کو دیکھ کر ہر ایک کو پہچان نہیں سکتیں ہماری ناک بہت سی خوشبوئیں صحیح محسوس نہیں کرسکتی، ہمارے کان بیک وقت بہت سی آوازیں سن نہیں سکتے مگر حضور کے حواس ان کمزوریوں سے محفوظ۔حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آج لاکھوں کا سلام بیک وقت سن کر سب کو علیحدہ جواب دیتے ہیں قیامت میں بیک وقت ساری امتوں میں سے اپنی امت کو پہچان لیں گے پھر ہر امتی کے ہر حال کو جانیں گے ورنہ شفاعت ناممکن ہے ۔حضور نعمتِ اِلٰہیہ کے قاسم ہیں اور قاسم ہر حصہ اور ہر حصہ دار کو پہچانتا ہے۔ حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا تھا
وَ أُ نَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ (پ۳، اٰل عمران:۴۹) ترجمۂ کنز الایمان :اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔
معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام ہر دانہ اور اس کے کھانے والے سے خبر دار ہیں۔جب حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اتنا علم ہے تو پھر نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم کا عالَم کیا ہوگا؟
دوسرا فائدہ : انبیائے کرام عَلَیْھِمُ السَّلَام کی بارگاہ ِالٰہی میں وہ عزت ہے کہ اگر وہ کسی بات پر بطریقہ ناز ضد کر جائیں یا قسم کھالیں تو ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ پوری فرمادیتا ہے ۔ دیکھو حضرت حِزْقِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کی عَرض معروض پر ان سب کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
تیسرا فائدہ: اللہ والوں کی پھونک یا آواز صورِ اسرافیل کا اثر رکھتی ہے کہ حضرت حِزْقِیْل عَلَیْہِ السَّلَام کی پکار سے نَفْخِ صُوْر (صورِ اسرافیل)کی طرح اتنی بڑی جماعت زندہ ہوگئی ۔
چوتھا فائدہ: کوئی بھی تدبیر سے تقدیر نہیں بدل سکتا اور نہ آنے والی موت کو ٹال سکتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! جہاد نہ چھوڑو جب اپنے وقت پر موت آئے گی تو بہتر ہے کہ راہِ خدا میں آئے۔
پانچواں فائدہ: طاعون سے بھاگنا منع ہے ، دیکھو یہ لوگ (یعنی بنی اسرائیل) طاعون سے بھاگے تھے عتابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے۔
(تفسیرِ نعیمی پ ۲، البقرہ، تحت الایۃ: ۲۴۳،۲/۴۸۳،مکتبہ اسلامیہ لاہور)
انسان کو اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی ، بُرے لوگوں کی صُحْبَت ، بُرے مشوروں اور تمام گناہوں سے بچنا چاہیے ۔بسا اوقات دنیا میں بھی گناہوں کی سزا ملتی ہے ،جس میں لوگوں کے لئے عبرت کا سامان ہوتا ہے ۔
Bookmarks