حضرت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی داستانِ زندگی بھی خوب ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سرزمین بصریٰ میں تجارت کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ وہاں انھیں ایک اچھا راہب ملا۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ جس نبی کے بارے میں انبیاء نے خبر دی ہے اس کا ظہور حرم کی زمین میں ہوگا اور اس کا وقت آگیا ہے۔ یہ سن کر طلحہ رضی اللہ عنہ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں وہ اس قافلہ میں شامل ہونے سے نہ رہ جائیں کیونکہ یہ ہدایت و رحمت اور نجات کا قافلہ ہے۔پھر کئی ماہ بعد جب آپ رضی اللہ عنہ واپس اپنے شہر مکہ آئے تو اہل مکہ کے اندر کچھ اشتعال پایا۔ آپ رضی اللہ عنہ جب بھی کسی شخص یا گروہ سے ملتے، تو انھیں اس وحی کے بارے میں باتیں کرتے پاتے جو جناب محمدﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ سفر سے واپس آئے ہیں اور ایک فرمانبردار و مطیع مومن کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں کہا: محمدﷺ اور ابوبکررضی اللہ عنہ؟ اللہ کی قسم یہ دونوں کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتے! حضرت محمدﷺ عمر کے چالیسویں برس کو پہنچ چکے ہیں اور ہم نے اس دوران ان سے ایک بھی جھوٹ نہیں سنا۔ کیا وہ آج اللہ کے بارے میں جھوٹ کہیں گے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اوپر وحی نازل کی ہے؟
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف چل پڑے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی زیادہ دیر گفتگو نہیں ہوئی تھی کہ رسول اللہﷺسے ملاقات اور آپ رضی اللہ عنہ کے اِتباع کے شوق کی رفتار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے دل کی دھڑکن سے بھی تیز ہو چکی تھی۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو ساتھ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں آگئے۔ جہاں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو کر قافل ایمان میں شامل ہو گئے اور اوّلین مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں اپنے مقام و مرتبہ، دولت کی فراوانی اور منافع بخش تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قریش کی تعذیبات کا شکار ہوئے۔ جب انھیں اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو نوفل بن خویلد کے حوالے کیا گیا جس کو ”قریش کا شیر“ کہا جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو سزا میں مبتلا کیے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ قریش کو اپنے اس عمل پر شرمندگی کا احساس ہوا اور اس کے انجام کا خوف بھی لاحق ہوگیا۔
جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ سوائے غزو بدر کے ہر غزوہ میں شریک رہے۔ غزوبدر میں آپ رضی اللہ عنہ اس لیے شریک نہ ہو سکے تھے کہ رسول اللہﷺنے آپ رضی اللہ عنہ اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے باہر کسی مہم پر بھیجا ہوا تھا۔ جب وہ مہم سر کرکے واپس مدینہ آئے تو نبیﷺ اور صحابہ غزو بدر سے واپس آ رہے تھے۔ ان دونوں اصحاب کو دلی صدمہ ہوا کہ وہ پہلے ہی غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شرکت کرنے کے اجر سے محروم رہ گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے یہ خبر دے کر انھیں مطمئن کردیا کہ جنگ لڑنے والوں کی طرح ان کو بھی پورا پورا اَجر ملے گا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بھی مالِ غنیمت میں اسی قدر حصہ دیا جس قدر جنگ میں شرکت کرنے والوں کو دیا تھا۔
اب غزو احد آیا کہ قریش کی پوری طاقت اور شدت بروئے کار آئے جس طرح وہ یومِ بدر کو جوش میں آئی تھی تاکہ مسلمانوں کو آخری شکست سے دوچار کرکے نیست و نابود کردیا جائے۔سب کچھ پیس کر رکھ دینے والی جنگ فوراً شروع ہو گئی جس نے زمین کو اپنی المناک لپیٹ میں لے لیا اور مشرکین کی بدبختی آگئی۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفار اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں تو پہاڑی درے پر موجود تیرانداز اپنی جگہوں سے نیچے اتر آئے تاکہ غنائمِ جنگ لوٹ سکیں۔ ادھر قریش کا لشکر اچانک پیچھے سے حملہ آور ہوا اور عنانِ جنگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔
پھر جنگ نئے سرے سے اپنی شدت و سختی اور ہولناکی کے ساتھ شروع ہو گئی۔ اس اچانک حملہ نے مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے ادھر نظر ڈالی جہاں رسول اللہﷺ کھڑے تھے۔ دیکھا کہ آپ شرک و کفر کی قوتوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تیزی سے رسول اللہﷺ کی جانب چلے اور اس فاصلے کو عبور کرنے لگے۔ ایک ایسا فاصلہ جس میں دسیوں زہرآلود تلواریں اور جنون زدہ نیزے لہرا رہے تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے دور سے دیکھا کہ رسول اللہﷺکے رخسارِمبارک سے لہو بہہ رہا ہے اور آپﷺ سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو کھا گئی اور آپ رضی اللہ عنہ نے ہولناک فاصلے کو چند چھلانگوں میں ہی طے کر ڈالا جبکہ مشرکین کی چھائیں چھائیں کرتی تلواریں رسول اللہﷺ کو حصار میں لیے ہوئے تھیں اور آپ کو کاری ضرب لگانا چاہتی تھیں۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اس خوفناک صورتِ حال میں رسول اللہﷺ کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنے دائیں بائیں بوٹیاں اڑانے والی تلوار کے وار کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا خون بہہ رہا ہے اور آپﷺ کی تکلیف بڑھ رہی ہے تو آپ ﷺ کو سہارا دیا اور اس گڑھے سے باہر نکالا جس میں آپﷺ کا پاؤں پھسل گیا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ اپنے بائیں ہاتھ اور سینے سے رسول اللہﷺ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور محفوظ مقام پر لے جا رہے تھے ساتھ ساتھ اپنے دائیں ہاتھ سے تلوار بھی چلا رہے تھے اور ان مشرکوں سے لڑ رہے تھے جو رسول اللہﷺ کو گھیرے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ”جب احد کے روز کا ذکر کیا جاتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے یہ دن تو سارے کا سارا طلحہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔ میں پہلا شخص تھا جو نبیﷺکے پاس آیا تو آپﷺ نے مجھے اور ابوعبیدہ بن جراح سے فرمایا: اپنے بھائی کی حالت کو دیکھو! ہم نے دیکھا تو طلحہ رضی اللہ عنہ کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیر کے 70کے قریب زخم تھے۔ان کی ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی۔ پھر ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔“
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تمام غزوات میں اگلی صفوں میں ہوا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ پرچمِ رسولﷺ پر قربان ہو کر اللہ کی رضامندی چاہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ مسلمان جماعت کے وسط میں زندگی گزارنے لگے۔ عبادت گزاروں کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور مجاہدین کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔ مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر دین کی بنیادیں مضبوط کرتے رہے۔ جو دین اس لیے آیا تھا کہ انسانیت ساری کی ساری انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے آئے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ ربّ کا حق ادا کر لیتے تو پھر اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ اپنی منافع بخش تجارت اور سودمند کاروبار میں مصروف ہوجاتے۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ دولت مند اور اہل ثروت مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ساری دولت و ثروت اس دین کی خدمت کے لیے وقف تھی جس کا علم آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی معیت میں اٹھا رکھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ اس دولت سے بے حساب خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ رضی اللہ عنہ کی اس دولت کوبے حساب بڑھاتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے بے انتہا جودوسخا کی بنا پر آپ کو طلحہ الخیر، (سراپا خیر طلحہ)، طلحہ الجود (سراپا سخاوت طلحہ) اور طلحہ الفیاض (بحر سخاوت طلحہ ) کا نام دے رکھا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی دولت سے ایک مرتبہ جو چیز نکل جاتی اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر انھیں واپس کرتا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سعدیٰ بنت عوف بیان کرتی ہیں ”ایک روز میں طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئی، میں نے انھیں غمگین دیکھا تو ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہیں؟“
انھوں نے جواب دیا ”میرے پاس جومال ہے وہ بہت زیادہ ہو گیا ہے یہاں تک کہ اس نے مجھے تکلیف دہ پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔“ میں نے ان سے کہا” تو پھر کیا ہوا اس کو تقسیم کردیں۔“ وہ اٹھے اور لوگوں کو بلا کر ان میں دولت تقسیم کرنے لگ گئے یہاں تک کہ اس دولت میں سے ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔“ ایک بار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک زمین بہت زیادہ قیمت پر فروخت کی ۔ جب دولت کے ڈھیر کو دیکھا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور کہنے لگے ”وہ شخص جس کے گھر میں اس مال کو ایک رات گزر جائے اسے نہیں معلوم کہ راتوں رات اسے کس قدر اللہ کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا جائے۔“
پھر انھوں نے اپنے کچھ دوستوں کو بلایا اور ان سے یہ مال اٹھوا کر مدینہ کی گلیوں، شاہراہوں اور گھروں میں جا کر تقسیم کرنے لگے یہاں تک کہ اِدھر صبح ہوئی اور ادھر ان کے پاس کوئی درہم نہ رہا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کی جودوسخا کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کے علاوہ کسی آدمی کو نہیں دیکھا جوبغیر مانگے اس قدر مال عطا کرتا ہو۔“ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال اور اقرباء کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والوں میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان کی کفالت کرتے۔ اس سلسلہ میں آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے:
”بنی تیم کے کسی گھرانے کا کوئی سرپرست ایسا نہیں جس کی وہ ضروریات پوری نہ کرتے ہوں اور اس کے عیال کا خیال نہ رکھتے ہوں! آپ رضی اللہ عنہ بنی تیم کی بیواؤں کی شادیوں کا انتظام کرتے اور لوگوں کے تاوان ادا کرتے۔“ حضرت سائب بن یزید کہتے ہیں ”میں سفر و حضر میں طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو طلحہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ درہم و دینار اور لباس و طعام کی سخاوت کرنے والا ہو۔“
خلافت عثمان میں فتنہ رونما ہوا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاسبہ کرنے والوں کی تائید کررہے تھے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ فتنہ اس افتراق و انتشار اور انتہا و انجام تک جا پہنچے گا تو وہ اس کے سدِباب کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ساتھ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی ہوتے جنھوں نے اس تحریک کی ابتدا میں محض اس لیے تائید کی تھی کہ یہ دباؤ اور محاسبے کی ایک تحریک ہے اور ا س سے زیادہ اس کی حیثیت کچھ نہیں۔
تاہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ اور پھر مظلومانہ قتل کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا یہ موٴقف تبدیل ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں مسلمانوں سے بیعت لی تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و حضرت زبیر ان لوگوں میں شامل تھے۔ پھر دونوں بزرگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عمرہ کی ادائی کے لیے مکہ جانے کی اجازت طلب کی اور مکہ چلے گئے۔ وہاں سے بصرہ چلے گئے۔ جہاں پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے بہت سی قوتیں جمع تھیں۔ یعنی اس جنگ جمل کی سرزمین جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے والے لشکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حامیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی کبھی صفائی نہیں دی جا سکی۔ اپنی اپنی محبت اور رائے پر شدید اصرار نے مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا دیا۔ اس جنگ میں سازشیوں اور اپنوں کی غلطیوں سے امت کے بڑے ہی قیمتی لوگوں کی جانیں گئیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انھوں نے اس ماحول سے نکلنے میں دیر نہیں لگائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب امّ الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ہَودَج میں بیٹھے اس لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا جو جنگ کے لیے آرہا تھا تو رو پڑے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے رسول اللہﷺ کے ۲ حواریوں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو لشکر کے وسط میں دیکھا تو دونوں کو لشکر سے باہر آنے کے لیے کہا۔ یہ دونوں حضرات باہر آئے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا ”اے طلحہ رضی اللہ عنہ! تو رسول اللہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو ساتھ لے کر لڑائی کے لیے نکلا ہے اور اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے؟“
پھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا : ”اے زبیررضی اللہ عنہ ! میں تجھے قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تیرے پاس سے رسول اللہﷺ گزرے تھے اور ہم فلاں جگہ پر تھے اور آپ نے تجھ سے فرمایا تھا: اے زبیر رضی اللہ عنہ! کیا تو علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں کرتا؟ تو نے کہا تھا: کیا میں اپنے خالہ زاد، عم زاد اور اس شخص سے محبت نہ کروں جو میرے دین پر ہے؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے فرمایا تھا” اے زبیررضی اللہ عنہ! اللہ کی قسم! تو ضرور اس سے جنگ آزما ہوگا جبکہ تو ظلم کر رہا ہوگا۔“
حضرت زبیررضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر جواب دیا ”ہاں مجھے یاد آگیا ہے! میں تو اسے بھول گیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تم سے اب لڑائی نہیں کروں گا۔“ پھر حضرت زبیررضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ دونوں اس اندرونی جنگ سے دست بردار ہو گئے مگر اس موقع پر جنگ سے دست برداری انھیں اپنی جانیں دے کر چکانی پڑی۔ حضرت زبیررضی اللہ عنہ کو حالتِ نماز میں عمرو بن جرموز نامی شخص نے قتل کر دیا اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو مروان بن حکم نے تیر کے نشانہ پر لے کر زندگی سے محروم کردیا۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جنگ جمل کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل لشکر میں شریک ہو کر جنگ آزما ہونے کے لیے پابہ رکاب ہوئے، تو آپ رضی اللہ عنہ امید یہ رکھتے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاسبے پر مبنی ان کے اس پہلے موٴقف کا کفارہ بن جائے گا جو آپ رضی اللہ عنہ کے ضمیر کے لیے کانٹا بن کر رہ گیا تھا۔ آپ معرکہ شروع ہونے سے قبل دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور آہ و زاری کے الفاظ میں دعاگو ہوتے ہیں تو آپ کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آپکہتے ہیں ”اے اللہ آج مجھ سے عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لے لے کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے ۔“
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب انھیں اور حضرت زبیررضی اللہ عنہ کو متوجہ فرمایا تو جناب علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ نے ان دونوں حضرتِ گرامی کے دلوں کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ حق پر ڈٹنے والے اور اس کے لیے لڑنے والے تھے۔ جونہی انھیں اندازہ ہوا کہ ان کا قدم درست نہیں ہے اور اللہ کے رسول ﷺنے بھی اسی بارے میں فرمایا اور سمجھایا تھا۔ انھوں نے میدان جنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی مگر سازشی عناصر کو ان کا یہ فیصلہ نہ بھایا اور انھوں نے دونوں صحابہ کو کچھ ہی دیر بعد زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ شہادت ان کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔
اللہ اکبر!شہادت حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں تھی۔ وہ جہاں بھی واقع ہوتی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اسے پا کر رہتے اور وہ انھیں پا کر رہتی۔ کیا رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا نہیں تھا ”یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی نذر پوری کر دی ہے اور جس کو یہ بات خوش کرے کہ وہ زمین پر کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھے تو وہ طلحہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔“ شہید نے اپنے عظیم انجام کو پا لیا اور واقع جمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو احساس ہوا کہ انھوں نے معاملہ فہمی میں عجلت سے کام لیا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہی ۲ لشکروں کا آمنا سامنا ہوگیا ہے تو اس تصادم سے کنارہ کش ہو کر فوراً بصرہ چھوڑ کر مدینہ چلی گئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوری عزت و تکریم کے ساتھ انھیں سفر کی تمام سہولیات بہم پہنچائیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اور وہ لوگ جو ان کے خلاف تھے جب شہدائے جنگ کا معاینہ کر چکے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سب کی نماز جنازہ پڑھی۔ جب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیررضی اللہ عنہ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان دونوں محترم اور جلیل القدر ہستیوں کو عظیم الفاظ میں الودا ع کہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان الوداعی کلمات کے آخری الفاظ یہ تھے:
”مجھے امید ہے کہ میں، طلحہ رضی اللہ عنہ، زبیررضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔“ (الحجر: ۷۴)
پھر دونوں حضرات کی قبروں پر غم ناک اور محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا ”میرے ان کانوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ”طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیررضی اللہ عنہ جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے۔“
Bookmarks