.......................
.......................
Last edited by YuMs; 12th October 2016 at 10:35 AM. Reason: FB link not allow on itd... Thnks
..........................
Last edited by YuMs; 12th October 2016 at 10:35 AM. Reason: FB link not allow on itd... Thnks
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں "محسن"
کیا میرے سوا اس شہر میں معصوم ہیں سارے
محسن نقوی
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمھارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں
کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ میری جان کچھ دنوں کا ہوں
زمیں زادے مری عمر کا حساب نہ کر
اٹھاکے دیکھ لے میزان کچھ دنوں کا ہوں
مجھے یہ دکھ کہ حشراتِ شب تمھارے لیے
میں خور و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہوں
کہ چند راتوں سے ششدر ہوں چند راتوں کا
کہ کچھ دنوں سے میں حیران کچھ دنوں کا ہوں
گزر ہی جائیں گے ناسک یہ دن بغیر گنے
میں اپنے وقت کی پہچان کچھ دنوں کا ہوں
- - - Updated - - -
دنیا کا کچھ برا بھی تماشا نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جیئیں گے ترے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بغیر روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آ گئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق، وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم
امجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا
مشتاق عاجز
اپنی ہر سانس میں اک حرفِ دعا رکھا ہے
زیست کو ہم نے مناجات بنا رکھا ہے
درد ایسا ہے کہ اظہار میں رسوائی ہے
زخم ایسا ہے کہ ماتھے پہ سجا رکھا ہے
کل کی اُمید پہ زندہ ہیں تو حیرت کیسی؟
اِک شکایت ہے جسے کل پہ اُٹھا رکھا ہے
شاید آ جائے کبھی لوٹ کے ، جانے والا
درِ اُمید کو دِن رات ُکھلا رکھا ہے
کوئی تنہائی سی تنہائی ہے گھر میں عاجزؔ
اپنی تصویر کو سینے سے لگا رکھا ہے
اعصاب کو کسک سے محبت بلا کی ہے
ہم ٹوٹ تو گئے پہ بدن شل نہیں کیا
تکمیل تو زوال کا پہلا پڑاؤ ہے
خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا
عرفان ستار
- - - Updated - - -
5
لبوں پہ حرف نہ کوئی سوال رکهتا تها
کبهی میں ضبط میں اتنا کمال رکهتا تها
وہ مُدّتوں کی جُدائی کے بعد ہم سے مِلا
تو اِس طرح سے کہ اب ہم گُریز کرنے لگے
بہت دِنوں سے وہ گھمبیر خامشی ہے فراز
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے
احمد فراز
...............
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا
امجد اسلام امجد
- - - Updated - - -
کل رات جانے کیا ہوا
کچھ دیر پہلے نیند سے
کچھ اشک ملنے آ گئے
کچھ خواب بھی ٹوٹے ہوئے
کچھ لوگ بھی بھولے ہوئے
کچھ راستہ بھٹکی ہوئی
کچھ گرد میں لپٹی ہوئی
کچھ بے طرح پھیلی ہوئیں
کچھ خول میں سمٹی ہوئیں
بے ربط سی سوچیں کئی
بھولی ہوئی باتیں کئی
ایک شخص کی یادیں کئی
پھر دیر تک جاگا رہا!
سوچوں میں گم بیٹھا رہا
انگلی سے ٹھنڈے فرش پر
اک نام بس لکھتا رہا
کل رات بھی وہ رات تھی
کچھ دیر پہلے نیند سے
میں دیر تک روتا رہا
کہا اُس نے ، زمانہ درد ہے اور تُم دوا جیسے
لگا، “تُم سے محبت ہے” مجھے اُس نے کہا جیسے
طلب کی اُس نے جب مجھ سے محبت کی وضاحت تو
بتایا، دَشت کے ہونٹوں پہ بارش کی دُعا جیسے
سُنو کیوں دل کی بستی کی طرف سے شور اُٹھتا ہے ؟
بتایا، حادثہ احساس کے گھر میں ہوا جیسے
کہو اے گُل ! کبھی خوشبو کا تُم نے عکس دیکھا ہے ؟
کہا ، قوسِ قزح کے سارے رنگوں کی صدا جیسے
سُنو ، خواہش کی لہروں پر سنبھلنا کیوں ہوا مُشکل ؟
بتایا پانیوں پر خواب کی رکھی بنا جیسے
بھلا تُم رُوح کی اِن کِرچیوں میں ڈھونڈتے کیا ہو ؟
کہا ، یہ اتنی روشن ہیں کہ سُورج ہے دیا جیسے
سُنو آنکھوں کی آنکھوں کا بیاں کیسا لگا تُم کو ؟
لگا ، پھولوں سے سرگوشی سی کرتی ہو صبا جیسے
- - - Updated - - -
عشق کا جادو
میرا تمام فن، میری کاوش میرا ریاض
اک ناتمام گیت کے مصرعے ہیں جن کے بیچ
معانی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
انجام جس کا طے نہ ہو ایک ایسا کھیل
میری متاع بس یہی جادو ہے عشق کا
سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
لیکن یہ ساحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
کُھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ
تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ
کس سے کہیں اے جان کہ یہ قصہ عجیب ہے
کہنے کہ یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اسکا بوجھ
سینے سے اک پہاڑ سا ہٹتا نہیں ہے یہ
لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
تجھ پہ اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ
(امجد اسلام امجد)
دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی‘ وہ نہ تھا
ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی
سب اپنی اپنی موجِ فنا سے ہیں بے خبر
میرا کمالِ شاعری‘ تیرا جمال بھی
حسنِ اَزل کی جیسے نہیں دُوسری مثال
ویسا ہی بے نظیر ہے اُس کا خیال بھی!
مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے
تھا چودھویں کا چاند بھی‘ وہ خوش جمال بھی
جانے وہ دن تھے کون سے اور کون سا تھا وقت!
گڈ مڈ سے اب تو ہونے لگے ماہ و سال بھی!
اِک چشمِ التفات کی پیہم تلاش میں
ہم بھی اُلجھتے جاتے ہیں‘ لمحوں کا جال بھی!
دنیا کے غم ہی اپنے لئے کم نہ تھے کہ اور
دل نے لگا لیا ہے یہ تازہ وبال بھی!
اِک سرسری نگاہ تھی‘ اِک بے نیاز چُپ
میں بھی تھا اُس کے سامنے‘ میرا سوال بھی!
آتے دنوں کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ کھُلے
سب کچھ فنا کا رزق ہے ماضی بھی حال بھی!
تم دیکھتے تو ایک تماشے سے کم نہ تھا
آشفتگانِ دشتِ محبت کا حال بھی!
اُس کی نگاہِ لُطف نہیں ہے‘ تو کچھ نہیں
امجد یہ سب کمال بھی‘ صاحبِ کمال بھی!
امجد اسلام امجد
- - - Updated - - -
دیکھ مری جاں کہہ گئے باہو، کون دِلوں کی جانے، ہُو
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں*کریں دیوانے، ہُو
جوگی بھی، جو نگر نگر میں مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لئے بھبوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں
شاعر بھی، جو میٹھی بولی بول کے مَن کو ہرتے ہیں
بنجارے، جو اُونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں
اُن میں سُچے موتی بھی ہیں، اُن میں*کنکر پتھر بھی
اُن میں اتھلے پانی بھی ہیں، اُن میں گہرے ساگر بھی
گوری دیکھ کے آگے بڑھنا، سب کا جھوٹا سچا، ہُو
ڈوبنے والی ڈوب گئی، وہ گھڑا تھا جس کا کچا، ہُو
بچھڑنا ھے تو خوشی سے
! بچھڑو
سوال کیسے ؟ جواب چھوڑو
....
کسے ملی ھیں جہاں کی خوشیاں ؟؟
ملیں ھیں کس کو عذاب چھوڑو
....
نئے سفر پر جو چل پڑے ھو
مجھے پتہ ھے کہ خوش بڑے ھو
...
ھے کوں اجڑا تمھارے پیچھے؟؟
یا کس کے ٹوٹے ھیں خواب چھوڑو
....
محبتوں کے تمام وعدے
نبھائے کس نے بھلائے کس
نے؟؟
تمہیں پشیمانی ھو گی
جو میری مانو حساب چھوڑو
- - - Updated - - -
گم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی
جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
جنــابِ سعد اللہ شــاہ
مجھ ســا جہــاں میں نــادان بھــی نہ ھـــو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ھو
کچھ بھی نہیں ھــوں مگــر اتنــا ضرور ھــے
بِن میــرے شـــائد آپ کی پہچان بھی نہ ھو
آشُفتہ ســر جو لوگ ہیں مشکل پسنــد ہیں
مشکل نہ ھـو جو کام تــو آســان بھی نہ ھو
محـرومیوں کا ہم نــے گلہ تکـــــ نہیں کیـــا
لیکن یہ کیـا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ھو
خوابوں سـی دلنــواز حقیقت نہیں کوئـــی
یہ بھــی نہ ھـو تو درد کا درمان بھی نہ ھو
رونــا یہی تو ھــے کہ اســے چاہتے ہیں ہم
اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ھو
- - - Updated - - -
"اعتراف"
مجھ کو بھی ترکیب سکھا
کوئی یار جُلاھے
اکثر تجھ کو دیکھا ھے کہ تانا بُنتے
جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ھوا
پھر سے باندھ کے
اور سِرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بُننے لگتے ھو
تیرے اس تانے میں لیکن
اک بھی گانٹھ گرہ بُنتر کی
دیکھ نہیں سکتا ھے کوئی
میں نے تو اک بار بُنا تھا
ایک ھی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرھیں
صاف نظر آتی ھیں
میرے یار جُلاھے
مجھ کو بھی ترکیب سکھا
کوئی یار جُلاھے
Bookmarks